باب : جب ایک یا کئی گواہ کسی معاملے کے اثبات میں گواہی دیں
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: When a witness or witnesses give an evidence)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور دوسرے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں تو فیصلہ اسی کے قول کے مطابق ہوگا جس نے اثبات میں گواہی دی ہے حمیدی نے کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے بلالؓ نے خبر دی تھی کہ نبی کریمﷺنے کعبہ میں نماز پڑھی ہے اور فضلؓ نے کہا تھا کہ آپ نے ( کعبہ کے اندر ) نماز نہیں پڑھی ۔ تو تمام لوگوں نے بلال ؓ کی گواہی کو تسلیم کرلیا ۔ اسی طرح اگر دو گواہوں نے اس کی گواہی دی کہ فلاں شخص کے فلاں پر ایک ہزار درہم ہیں اور دوسرے دو گواہوں نے گواہی دی کے ڈیڑھ ہزار درہم ہیں تو فیصلہ زیادہ کی گواہی دینے والوں کے قول کے مطابق ہوگا ۔ حضرت فضلؓ کا کہنا تھا کہ میں نے آپﷺ کو کعبہ میں نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ ان کو اس بارے میں علم نہ تھا۔ حضرت بلالؓ کی شہادت تھی کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا۔ اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ لہٰذا ان ہی کی بات کو مانا گیا۔
2640.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی دختر سے نکاح کیا تو اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔ میں نے عقبہ اور اس کی منکوحہ (دونوں)کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے) مجھے خبر دی ہے، پھر انھوں نے ابو اہاب کے خاندان کی طرف صورت حال کی وضاحت کے لیے پیغام بھیجا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ اس عورت نے ہماری بیٹی کو دودھ پلایا ہو۔ حضرت عقبہ ؓ سوار ہو کر مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اب تم اسے کیسے رکھ سکتے ہو، جبکہ (رضاعت کی) بات کہی جا چکی ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ نے اس خاتون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق دودھ پلانے والی عورت نے رضاعت کو ثابت کیا، لیکن حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی بیوی کے اہل خانہ نے اس کی نفی کی۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب معاملہ گیا تو آپ نے اس عورت کی بات کا اعتبار کیا اور حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو بیوی سے علیحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔ (2) یہ حکم وجوب کے لیے تھا یا احتیاط اور تقویٰ کے اعتبار سے، بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کی گواہی قبول فرمائی۔ معلوم ہوا کہ گواہی کے موقع پر اثبات نفی پر مقدم ہے۔ (3) دودھ کے متعلق دیگر مسائل و احکام ہم آئندہ کتاب النکاح میں بیان کریں گے، نیز معلوم ہوا کہ جہاں حلت و حرمت کا مسئلہ ہو وہاں احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہ چیز اختیار کی جائے جو شک و شبہ سے بالا ہو اور جو چیز شک پیدا کرتی ہو اسے ترک کر دیا جائے۔ مذکورہ واقعہ میں احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت عقبہ بن حارث ؓ اپنی بیوی کو چھوڑ دیتے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2548
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2640
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2640
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2640
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
کچھ لوگوں نے ایک حادثے کی گواہی دی، دوسرے لوگوں نے کہا: ہمیں تو اس کا علم نہیں تو حادثے کے واقع ہونے کی گواہی دینے والوں کے قول کے مطابق فیصلہ ہو گا کیونکہ اثبات کو نفی پر ترجیح ہوتی ہے۔ اس قاعدے کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الزکاۃ، باب العشر ۔۔۔ میں بھی بیان کیا ہے۔ (حدیث: 1483)
اور دوسرے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں تو فیصلہ اسی کے قول کے مطابق ہوگا جس نے اثبات میں گواہی دی ہے حمیدی نے کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے بلالؓ نے خبر دی تھی کہ نبی کریمﷺنے کعبہ میں نماز پڑھی ہے اور فضلؓ نے کہا تھا کہ آپ نے ( کعبہ کے اندر ) نماز نہیں پڑھی ۔ تو تمام لوگوں نے بلال ؓ کی گواہی کو تسلیم کرلیا ۔ اسی طرح اگر دو گواہوں نے اس کی گواہی دی کہ فلاں شخص کے فلاں پر ایک ہزار درہم ہیں اور دوسرے دو گواہوں نے گواہی دی کے ڈیڑھ ہزار درہم ہیں تو فیصلہ زیادہ کی گواہی دینے والوں کے قول کے مطابق ہوگا ۔ حضرت فضلؓ کا کہنا تھا کہ میں نے آپﷺ کو کعبہ میں نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ ان کو اس بارے میں علم نہ تھا۔ حضرت بلالؓ کی شہادت تھی کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا۔ اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ لہٰذا ان ہی کی بات کو مانا گیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی دختر سے نکاح کیا تو اس کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔ میں نے عقبہ اور اس کی منکوحہ (دونوں)کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ ؓ نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تونے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے (اس سے پہلے) مجھے خبر دی ہے، پھر انھوں نے ابو اہاب کے خاندان کی طرف صورت حال کی وضاحت کے لیے پیغام بھیجا تو انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا کہ اس عورت نے ہماری بیٹی کو دودھ پلایا ہو۔ حضرت عقبہ ؓ سوار ہو کر مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اب تم اسے کیسے رکھ سکتے ہو، جبکہ (رضاعت کی) بات کہی جا چکی ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ نے اس خاتون سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے مطابق دودھ پلانے والی عورت نے رضاعت کو ثابت کیا، لیکن حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی بیوی کے اہل خانہ نے اس کی نفی کی۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب معاملہ گیا تو آپ نے اس عورت کی بات کا اعتبار کیا اور حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو بیوی سے علیحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔ (2) یہ حکم وجوب کے لیے تھا یا احتیاط اور تقویٰ کے اعتبار سے، بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کی گواہی قبول فرمائی۔ معلوم ہوا کہ گواہی کے موقع پر اثبات نفی پر مقدم ہے۔ (3) دودھ کے متعلق دیگر مسائل و احکام ہم آئندہ کتاب النکاح میں بیان کریں گے، نیز معلوم ہوا کہ جہاں حلت و حرمت کا مسئلہ ہو وہاں احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہ چیز اختیار کی جائے جو شک و شبہ سے بالا ہو اور جو چیز شک پیدا کرتی ہو اسے ترک کر دیا جائے۔ مذکورہ واقعہ میں احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت عقبہ بن حارث ؓ اپنی بیوی کو چھوڑ دیتے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام حمیدی بیان کرتے ہیں کہ یہ ایسا معاملہ ہے جیسا کہ حضرت بلالؓ عنہ نے نبی ﷺکے متعلق کہا تھا کہ آپ نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی اور فضل بن عباس ؓ نے کہا کہ نہیں پڑھی تو لوگوں نے حضرت بلالؓ عنہ کی گواہی کو قبول کیا۔ اسی طرح اگر دو گواہوں نے گواہی دی کہ فلاں شخص کا فلاں پر ایک ہزار درہم قرض ہے اور دوسرے دو گواہوں نے ڈیڑھ ہزار کی گواہی دی تو اضافےکے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حبان نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی ، کہا ہم کو عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انهيں عقبہ بن حارث ؓ نے کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی ۔ ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے ۔ عقبہ ؓ نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا ۔ پھر انہوں نے آل ابواہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس متعلق پوچھے ۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے ۔ عقبہ ؓ اب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ، اب کیا ہوسکتا ہے جب کہ کہا جاچکا ۔ چنانچہ آپ نے دونوں میں جدائی کرادی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرادیا ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس طرح ثابت ہوا کہ عقبہ اور اس کی اہلیہ کے عزیز کا بیان نفی میں تھا اور دودھ پلانے والی عورت کا بیان اثبات میں تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اسی عورت کی گواہی قبول فرمائی۔ معلوم ہوا کہ گواہی میں اثبات نفی پر مقدم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Abu Mulaika from 'Uqba bin Al-Harith (RA): Uqba married the daughter of Abu Ihab bin Aziz (RA) , and then a woman came and said, "I suckled 'Uqba and his wife." 'Uqba said to her, "I do not know that you have suckled me, and you did not inform me." He then sent someone to the house of Abu Ihab to enquire about that but they did not know that she had suckled their daughter. Then 'Uqba went to the Prophet (ﷺ) in Madinah and asked him about it. The Prophet (ﷺ) said to him, "How (can you keep your wife) after it has been said (that both of you were suckled by the same woman)?" So, he divorced her and she was married to another (husband).