باب : کسی گواہ کو عادل ثابت کرنے کے لیے کتنے آدمیوں کی گواہی ضروری ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: How many witnesses are sufficient to attest)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2643.
حضرت ابو الاسود سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا تو وہاں ایک وبائی مرض پھیلا ہوا تھا جس میں لوگ بڑی تیزی سے فوت ہو رہے تھے۔ میں حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ گزرا۔ اس کی تعریف کی گئی تو حضرت عمر ؓ نے کہا: واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا، اس کی بھی تعریف کی گئی تو اس کے متعلق بھی حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا اور اس کی برائی بیان کی گئی تو سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انھوں نے فرمایا: میں نے وہی کہا جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ’’جس مسلمان کے لیے چارآدمی اس کی نیک سیرتی کی گواہی دیں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائےگا۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟ فرمایا: ’’تین بھی۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اگرصرف دو آدمی گواہی دیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’دو دیں تب بھی۔‘‘ پھر ہم نے یہ نہ پوچھا کہ اگر ایک شخص گواہی دے تو کیا ہو گا ؟
تشریح:
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بیان کی ہوئی بات کو دہرایا ہے، البتہ اس حدیث میں اچھے یا برے ہونے کی گواہی دینے والوں کی تعداد کا بیان ہے کہ اگر دو اہل ایمان بھی کسی کے متعلق گواہی دیں تو اسے تسلیم کیا جائے گا، اس لیے معلوم ہوا کہ تعدیل (نیک سیرتی بیان کرنے) کے لیے کم از کم دو آدمیوں کی گواہی کافی ہے، البتہ گواہی دینے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار اور مثالی عقائد و نظریات کے حامل ہوں۔ امام بخاری ؒ کے دوسرے عنوانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تزکیے کے لیے ایک آدمی کی گواہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2551
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2643
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2643
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2643
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
کسی کی نیک سیرتی بیان کرنا تعدیل اور بدچلنی نمایاں کرنا جرح کہلاتا ہے۔ کیا کسی کی جرح و تعدیل کے لیے تعداد اشخاص کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا موقف ہے کہ جرح و تعدیل کے لیے کم از کم دو آدمیوں کی گواہی ضروری ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس کے لیے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ آئندہ وہ ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کریں گے: (إذا زكيٰ رجل رجلا كفاه) "تزکیے کے لیے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے۔" (صحیح البخاری،الشھادات،باب:16)
حضرت ابو الاسود سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا تو وہاں ایک وبائی مرض پھیلا ہوا تھا جس میں لوگ بڑی تیزی سے فوت ہو رہے تھے۔ میں حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ گزرا۔ اس کی تعریف کی گئی تو حضرت عمر ؓ نے کہا: واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا، اس کی بھی تعریف کی گئی تو اس کے متعلق بھی حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا اور اس کی برائی بیان کی گئی تو سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انھوں نے فرمایا: میں نے وہی کہا جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ’’جس مسلمان کے لیے چارآدمی اس کی نیک سیرتی کی گواہی دیں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائےگا۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟ فرمایا: ’’تین بھی۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اگرصرف دو آدمی گواہی دیں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’دو دیں تب بھی۔‘‘ پھر ہم نے یہ نہ پوچھا کہ اگر ایک شخص گواہی دے تو کیا ہو گا ؟
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بیان کی ہوئی بات کو دہرایا ہے، البتہ اس حدیث میں اچھے یا برے ہونے کی گواہی دینے والوں کی تعداد کا بیان ہے کہ اگر دو اہل ایمان بھی کسی کے متعلق گواہی دیں تو اسے تسلیم کیا جائے گا، اس لیے معلوم ہوا کہ تعدیل (نیک سیرتی بیان کرنے) کے لیے کم از کم دو آدمیوں کی گواہی کافی ہے، البتہ گواہی دینے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار اور مثالی عقائد و نظریات کے حامل ہوں۔ امام بخاری ؒ کے دوسرے عنوانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تزکیے کے لیے ایک آدمی کی گواہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے داؤد بن ابی فرات نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ابی الاسود سے کہ میں مدینہ آیا تو یہاں وبا پھیلی ہوئی تھی ، لوگ بڑی تیزی سے مر رہے تھے ۔ میں حضرت عمر ؓ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ گزرا ۔ لوگوں نے اس میت کی تعریف کی تو حضرت عمر ؓ نے کہا کہ واجب ہوگئی ۔ پھر دوسرا گزار لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی حضرت عمر نے کہا واجب ہوگئی ۔ پھر تیسرا گزرا تو لوگوں نے اسکی برائی کی ، حضرت عمر نے اس کے لیے یہی کہا کہ واجب ہوگئی ۔ میں نے پوچھا امیرالمؤمنین ! کیا واجب ہوگئی ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسی طرح کہا ہے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھائی کی گواہی دے دیں اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرتا ہے ۔ ہم نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا اور اگر تین دیں ؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی ۔ ہم نے پوچھا اور اگر دو آدمی گواہی دیں ؟ فرمایا دوپر بھی ۔ پھر ہم نے ایک کے متعلق آپ سے نہیں پوچھا ۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ تعدیل اور تزکیہ کے لیے کم سے کم دو شخصوں کی گواہی ضروری ہے۔ امام مالک اور شافعی کا یہی قول ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک کی بھی گواہی کافی ہے۔ (قسطلانی) حدیث کا مطلب یہ کہ جس کی مسلمانوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس کی برائی کی اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ جس کا مطلب رائے عامہ کی تصویب ہے۔ سچ ہے آوازہ خلق کو نقارہ خدا کہتے ہیں۔ مجتہد مطلق امام بخاری کا ان روایات کے لانے کامقصد یہ ہے کہ تعدیل و تزکیہ میں رائے عامہ کا کافی دخل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Aswad (RA): Once I went to Madinah where there was an outbreak of disease and the people were dying rapidly. I was sitting with 'Umar and a funeral procession passed by. The people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed" (Paradise). Then another funeral procession passed by. The people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed." (Paradise). Then another funeral procession passed by. The people praised the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed (Paradise)." Then a third funeral procession passed by and the people talked badly of the deceased. 'Umar said, "It has been affirmed (Hell)." I asked Umar, "O chief of the believers! What has been affirmed?" He said, "I have said what the Prophet (ﷺ) said. He said, 'Allah will admit into paradise any Muslim whose good character is attested by four persons.' We asked the Prophet, 'If there were three witnesses only?' He said, 'Even three.' We asked, 'If there were two only?' He said, 'Even two.' But we did not ask him about one witness."