باب: اس بیان میں کہ غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا بھی جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Interval during ablution or bath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا۔اس اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الام میں روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ نے بازار میں وضو کیا۔ پھر ایک جنازے میں بلائے گئے تووہاں آپ نے موزوں پر مسح کیا اور جنازے کی نماز پڑھی۔ حافظ نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری کا منشاءباب یہ ہے کہ غسل اور وضومیں موالات واجب نہیں ہے۔
265.
حضرت میمونہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور پردہ کر دیا۔ آپ نے اپنے (دائیں ہاتھ سے بائیں) ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اسے ایک یا دو مرتبہ دھویا۔ حضرت سلیمان اعمش کہتےہیں: مجھے یاد نہیں، سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر زمین یا دیوار سے اپنا ہاتھ رگڑا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، اور اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا، پھر بدن پر پانی بہایا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد ازاں میں نے ایک کپڑا دیا لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا اور اس کے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مسئلہ موالات بیان کیا ہے، یعنی اعضائے وضو اور غسل کو پے درپے دھونا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جواز تفریق ہی امام شافعی ؒ کا قول جدید ہے جس کے لیے بایں طور استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء کا دھونا فرض کیا ہے جو شخص بھی اس امر کی تعمیل کرے گا وہ فرض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائےگا، خواہ تفریق سے کرے یا موالات سے۔ امام بخاری ؒ نے اس کی تائید حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے بھی کر دی ہے۔ یہی موقف ابن مسیب، عطاء اور ایک جماعت کا ہے۔ امام مالک ؒ اور حضرت ربیعہ ؒ کہتے ہیں کہ جو دانستہ تفریق کرے گا، اس پر وضو اور غسل کا اعادہ ہو گا اور جو بھول کر ایسا کرے گا، اسے دوبارہ وضو یا غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔ امام مالک ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر تفریق تھوڑے وقفے کی ہے تو بنا کرے، اگر لمبے وقفے کی ہے تو اعادہ کرے۔ امام اوزاعی اور قتادہ کہتے ہیں کہ اگر تفریق اس قدر ہے کہ اعضاء خشک ہو جائیں تو اعادہ ہے۔ بصورت دیگر نہیں۔ امام نخعی ؒ نے غسل میں تو تفریق کی اجازت دی ہے، مگر وضو میں نہیں۔ مذاہب کی یہ تفصیل ابن منذر ؒ نے بیان کی ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ جس نے اس معاملے میں اعضاء کے خشک ہونے کی حد كو فاصل قراردیا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ (محلی ابن حزم: 69/2) 2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز غسل میں وضو فرمایا، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، پھر غسل فرمایا اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے۔ اس سے معلوم ہوا اعضائے وضو میں موالات ضروری نہیں، بلکہ تفریق جائز ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ حدیث اور اثر میں صرف وضو کے متعلق تفریق کا جواز ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضو کے ساتھ غسل کو بھی شامل فرمایا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موالات و تفریق کے متعلق وضو اور غسل کی حیثیت یکساں ہے جو حضرات موالات کے قائل ہیں، مثلاً: امام مالک ؒ وغیرہ وہ وضو اور غسل دونوں میں موالات کو شرط قراردیتے ہیں اور جن کے نزدیک موالات ضروری نہیں، وہ دونوں جگہ اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ صرف امام نخعی ؒ نے تفریق و موالات کے سلسلے میں وضو اور غسل میں فرق کیا ہے۔ 3۔ حافظ ابن حزم ؒ نے بھی اس کے متعلق مفصل بحث کی ہے، انھوں نے بھی وضو اور غسل میں تفریق کو جائز قراردیا ہے، خواہ درمیان میں کتنا ہی وقفہ ہو جائے اور اس کو امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ ، امام اوزاعی ؒ اور سفیان ثوری ؒ کا مذہب لکھا ہے۔ پھر احادیث وآثار ذکر کر کے امام مالک ؒ کے موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري:487/1) علامہ طحاوی ؒ نے اس کے متعلق بڑی عمدۃ بات لکھی ہے کہ اعضاء کا خشک ہو جانا حدث نہیں کہ اسے ناقض وضو قراردیا جائے۔ اگر وضو کرنے کے بعد اعضاء خشک ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو دوران وضو میں اعضاء کا خشک ہو جانا کیونکر ناقض وضو ہو سکتا ہے۔ (محلی ابن حزم: 68/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
267
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
265
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
265
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
266
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ وضو اور غسل کے ارکان میں موالات یعنی پے درپے دھونا ضروری نہیں بلکہ پہلے دھوئے ہوئے اعضاء کے خشک ہونے کے بعد بھی دوسرے اعضاء دھو لیے جائیں تو بھی وضو اور غسل صحیح رہے گا اس سلسلے میں انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اثر پیش کیا ہے جسے ابن حزم نے بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار میں تھے۔وہاں پیشاب کرنے کے بعد وضو کیا اس طرح کہ چہرہ اور ہاتھ دھوئے سر کا مسح کیا پھر ایک جنازے کے لیے آپ کو مسجد نبوی میں بلا گیا وہاں پہنچ کر آپ نے موزوں پر مسح کیا اور نماز جنازہ پڑھائی۔
ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا۔اس اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الام میں روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمرؓ نے بازار میں وضو کیا۔ پھر ایک جنازے میں بلائے گئے تووہاں آپ نے موزوں پر مسح کیا اور جنازے کی نماز پڑھی۔ حافظ نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری کا منشاءباب یہ ہے کہ غسل اور وضومیں موالات واجب نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت میمونہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور پردہ کر دیا۔ آپ نے اپنے (دائیں ہاتھ سے بائیں) ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اسے ایک یا دو مرتبہ دھویا۔ حضرت سلیمان اعمش کہتےہیں: مجھے یاد نہیں، سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر زمین یا دیوار سے اپنا ہاتھ رگڑا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، اور اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا، پھر بدن پر پانی بہایا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد ازاں میں نے ایک کپڑا دیا لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا اور اس کے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے مسئلہ موالات بیان کیا ہے، یعنی اعضائے وضو اور غسل کو پے درپے دھونا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جواز تفریق ہی امام شافعی ؒ کا قول جدید ہے جس کے لیے بایں طور استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء کا دھونا فرض کیا ہے جو شخص بھی اس امر کی تعمیل کرے گا وہ فرض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائےگا، خواہ تفریق سے کرے یا موالات سے۔ امام بخاری ؒ نے اس کی تائید حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے بھی کر دی ہے۔ یہی موقف ابن مسیب، عطاء اور ایک جماعت کا ہے۔ امام مالک ؒ اور حضرت ربیعہ ؒ کہتے ہیں کہ جو دانستہ تفریق کرے گا، اس پر وضو اور غسل کا اعادہ ہو گا اور جو بھول کر ایسا کرے گا، اسے دوبارہ وضو یا غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔ امام مالک ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر تفریق تھوڑے وقفے کی ہے تو بنا کرے، اگر لمبے وقفے کی ہے تو اعادہ کرے۔ امام اوزاعی اور قتادہ کہتے ہیں کہ اگر تفریق اس قدر ہے کہ اعضاء خشک ہو جائیں تو اعادہ ہے۔ بصورت دیگر نہیں۔ امام نخعی ؒ نے غسل میں تو تفریق کی اجازت دی ہے، مگر وضو میں نہیں۔ مذاہب کی یہ تفصیل ابن منذر ؒ نے بیان کی ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ جس نے اس معاملے میں اعضاء کے خشک ہونے کی حد كو فاصل قراردیا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ (محلی ابن حزم: 69/2) 2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز غسل میں وضو فرمایا، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، پھر غسل فرمایا اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے۔ اس سے معلوم ہوا اعضائے وضو میں موالات ضروری نہیں، بلکہ تفریق جائز ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ حدیث اور اثر میں صرف وضو کے متعلق تفریق کا جواز ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضو کے ساتھ غسل کو بھی شامل فرمایا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موالات و تفریق کے متعلق وضو اور غسل کی حیثیت یکساں ہے جو حضرات موالات کے قائل ہیں، مثلاً: امام مالک ؒ وغیرہ وہ وضو اور غسل دونوں میں موالات کو شرط قراردیتے ہیں اور جن کے نزدیک موالات ضروری نہیں، وہ دونوں جگہ اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ صرف امام نخعی ؒ نے تفریق و موالات کے سلسلے میں وضو اور غسل میں فرق کیا ہے۔ 3۔ حافظ ابن حزم ؒ نے بھی اس کے متعلق مفصل بحث کی ہے، انھوں نے بھی وضو اور غسل میں تفریق کو جائز قراردیا ہے، خواہ درمیان میں کتنا ہی وقفہ ہو جائے اور اس کو امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ ، امام اوزاعی ؒ اور سفیان ثوری ؒ کا مذہب لکھا ہے۔ پھر احادیث وآثار ذکر کر کے امام مالک ؒ کے موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري:487/1) علامہ طحاوی ؒ نے اس کے متعلق بڑی عمدۃ بات لکھی ہے کہ اعضاء کا خشک ہو جانا حدث نہیں کہ اسے ناقض وضو قراردیا جائے۔ اگر وضو کرنے کے بعد اعضاء خشک ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو دوران وضو میں اعضاء کا خشک ہو جانا کیونکر ناقض وضو ہو سکتا ہے۔ (محلی ابن حزم: 68/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے قدموں کو وضو کا پانی خشک ہو جانے کے بعد دھویا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کہ میمونہ ؓ نے کہا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ ﷺ نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انھیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔
حدیث حاشیہ:
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔ مگرپاؤں نہیں دھوئے۔ یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): I placed water for the bath of Allah's Apostle (ﷺ) and he poured water over his hands and washed them twice or thrice then he rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and blowing it out. After that he washed his face, both forearms and head thrice and then poured water over his body. He withdrew from that place and washed his feet.