باب : اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: Do not be a witness for injustice, if asked for that)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2651.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دورمیں ہیں، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے۔‘‘ حضرت عمران کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد کے دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور ان پر اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ وہ از خود گواہی دینے کی پیشکش کریں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ نذریں مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والی نسل دین سے درجہ بہ درجہ دور ہوتی چلی جائے گی، چنانچہ دور حاضر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دور اول سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس ظلم و ستم کے دور میں کوئی معقول شخص لوگوں کی بدکرداری کی وجہ سے کسی کو گواہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہو گا لیکن بدکردار لوگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے دوسروں کے معاملات میں ازخود دخل دیں گے۔ ایسے لوگوں پر موٹاپا آ جائے گا کیونکہ دولت کی ریل پیل ہو گی اور چربی کے نیچے ان کا ایمان اور ضمیر دب جائے گا۔ (2) ان لوگوں سے گواہی اس لیے طلب نہیں کی جائے گی کہ وہ اسے صحیح طریقے پر ادا کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔ اس بنا پر ان کی گواہی ظلم کی گواہی ہو گی، نیز ان کا مقصد دولت اکٹھی کرنا ہو گا، خواہ وہ سچی گواہی سے حاصل ہو یا جھوٹی گواہی سے۔ جب سچی جھوٹی گواہی سے بے پروائی برتنے پر مذکورہ مذمت ہے تو جھوٹی گواہی تو انتہائی مذموم ہو گی۔ اگر کسی کی گواہی سے مظلوم کی مدد ہوتی ہو تو ایسی گواہی مطالبے کے بغیر دینا ضروری ہے۔ حدیث میں ایسی گواہی کی فضیلت آئی ہے۔ واضح رہے کہ طبعی موٹاپا قابل مذمت نہیں، البتہ حرام خوری کے نتیجے میں جو موٹاپا ظاہر ہو گا مذکورہ حدیث میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2559
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2651
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2651
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2651
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے دورمیں ہیں، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جوان کے بعد آئیں گے۔‘‘ حضرت عمران کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد کے دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو خیانت کریں گے اور ان پر اعتبارنہیں کیا جائے گا۔ وہ از خود گواہی دینے کی پیشکش کریں گے، حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ نذریں مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مطلب یہ ہے کہ ہر آنے والی نسل دین سے درجہ بہ درجہ دور ہوتی چلی جائے گی، چنانچہ دور حاضر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دور اول سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اس ظلم و ستم کے دور میں کوئی معقول شخص لوگوں کی بدکرداری کی وجہ سے کسی کو گواہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہو گا لیکن بدکردار لوگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے دوسروں کے معاملات میں ازخود دخل دیں گے۔ ایسے لوگوں پر موٹاپا آ جائے گا کیونکہ دولت کی ریل پیل ہو گی اور چربی کے نیچے ان کا ایمان اور ضمیر دب جائے گا۔ (2) ان لوگوں سے گواہی اس لیے طلب نہیں کی جائے گی کہ وہ اسے صحیح طریقے پر ادا کرنے کے عادی نہیں ہوں گے۔ اس بنا پر ان کی گواہی ظلم کی گواہی ہو گی، نیز ان کا مقصد دولت اکٹھی کرنا ہو گا، خواہ وہ سچی گواہی سے حاصل ہو یا جھوٹی گواہی سے۔ جب سچی جھوٹی گواہی سے بے پروائی برتنے پر مذکورہ مذمت ہے تو جھوٹی گواہی تو انتہائی مذموم ہو گی۔ اگر کسی کی گواہی سے مظلوم کی مدد ہوتی ہو تو ایسی گواہی مطالبے کے بغیر دینا ضروری ہے۔ حدیث میں ایسی گواہی کی فضیلت آئی ہے۔ واضح رہے کہ طبعی موٹاپا قابل مذمت نہیں، البتہ حرام خوری کے نتیجے میں جو موٹاپا ظاہر ہو گا مذکورہ حدیث میں اس کی مذمت کی گئی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا کہ میں نے زہدم بن مضرب سے سنا کہ میں نے عمران بن حصین ؓ سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے۔ (تبع تابعین) عمران نے بیان کیا کہ میں نہیں جانتا آنحضرت ﷺ نے دو زمانوں کا (اپنے بعد) ذکر فرمایا یا تین کا پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو چور ہوں گے، جن میں دیانت کا نام نہ ہوگا۔ ان سے گواہی دینے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے۔ نذریں مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے۔ مٹاپا ان میں عام ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ نہ گواہی میں ان کو باک ہوگا نہ قسم کھانے میں، جلدی کے مارے کبھی گواہی پہلے ادا کریں گے پھر قسم کھائیں گے۔ کبھی قسم پہلے کھالیں گے پھر گواہی دیں گے۔ حدیث کے جملہ ویشھدون ولا یستشھدون پر حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: وَبَرَهَا وَلَبَنَهَا وَوَلَدَهَا وَهِيَ الْمِنْحَةُ وَالْمَنِيحَةُ انْتَهَى وَقَالَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ الْمَنِيحَةُ بِالنُّونِ وَالْمُهْمَلَةِ وَزْنُ عَظِيمَةٍ هِيَ فِي الْأَصْلِ الْعَطِيَّةُ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ الْمَنِيحَةُ عِنْدَ الْعَرَبِ عَلَى وَجْهَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنْ يُعْطِيَ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ صِلَةً فَتَكُونَ لَهُ وَالْآخَرُ أَنْ يُعْطِيَهُ نَاقَةً أَوْ شَاةً يَنْتَفِعُ بِحَلْبِهَا وَوَبَرِهَا زَمَنًا ثُمَّ يَرُدَّهَا وَقَالَ الْقَزَّازُ قِيلَ لَا تَكُونُ الْمَنِيحَةُ إِلَّا نَاقَةً أَوْ شَاةً وَالْأَوَّلُ أَعْرَفُ انْتَهَى و ذهب آخرونَ إلیٰ الجمع بینهما الخ(فتح) یعنی ویشهدون ولا یستشهدون سے زید بن خالد کی حدیث مرفوع معارض ہے، جسے امام مسلم نے روایت کی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو بہترین گواہوں کی خبر نہ دوں؟ وہ وہ لوگ ہوں گے کہ وہ طلبی سے پہلے ہی خود گواہی دے دیں۔ ہردواحادیث کی ترجیح میں علماءکا اختلاف ہے۔ ابن عبدالبر نے حدیث میں زید بن خالد (مسلم) کو ترجیح دی ہے کیوں کہ یہ اہل مدینہ کی روایت ہے۔ اور حدیث مذکور اہل عراق کی روایت سے ہے۔ پس اہل عراق پر اہل مدینہ کو ترجیح حاصل ہے۔ انہوں نے یہاں تک مبالغہ کیا کہ حدیث عمران مذکورہ کو کہہ دیا کہ اس کی کوئی اصل نہیں (حالانکہ ان کا ایسا کہنا بھی صحیح نہیں ہے) دوسرے علماءنے حدیث عمران کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے کہ اس پر ہر دو اماموں امام بخاری و امام مسلم کا اتفاق ہے۔ اور حدیث زید بن خالد کو صرف امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ تیسرا گروہ ان علماءکا ہے جو ان ہر دو احادیث میں تطبیق دینے کا قائل ہے۔ پہلی تطبیق یہ دی گئی ہے کہ حدیث زید میں ایسے شخص کی گواہی مراد ہے جسے کسی انسان کا حق معلوم ہے اور وہ انسان خود اس سے لاعلم ہے، پس وہ پہلے ہی جاکر اس صاحب حق کے حق میں گواہی دے کر اس کا حق ثابت کردیتا ہے۔ یا یہ کہ اس شہادت کا کوئی اور عالم زندہ نہ ہو پر وہ اس شہادت کے مستحقین ورثہ کو خود مطلع کردے اور گواہی دے کر ان کو معلوم کرادے۔ اس جواب کو اکثر علماءنے پسند کیا ہے۔ اور بھی کئی توجیہات کی گئی ہیں جو فتح الباری میں مذکور ہیں۔ پس بہتر یہی ہے کہ ایسے تعارضات کو مناسب تطبیق سے اٹھایا جائے نہ کہ کسی صحیح حدیث کا انکار کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zahdam bin Mudrab (RA): I heard Imran bin Husain saying, "The Prophet (ﷺ) said, 'The best people are those living in my generation, then those coming after them, and then those coming after (the second generation)." Imran said "I do not know whether the Prophet (ﷺ) mentioned two or three generations after your present generation. The Prophet (ﷺ) added, 'There will be some people after you, who will be dishonest and will not be trustworthy and will give witness (evidences) without being asked to give witness, and will vow but will not fulfill their vows, and fatness will appear among them."