مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ فرقان میں ) فرمایا بہشت کا بالاخانہ ان کو ملے گا جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ اسی طرح گواہی کو چھپانا بھی گناہ ہے ۔ ( اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ) گواہی کو نہ چھپاو ، اور جس شخص نے گواہی کو چھپایا تو اس کے دل میں کھوٹ ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو تم کرتے ہو ۔ ( اور اللہ تعالیٰ کافرمان سورۃ نساءمیں کہ ) اگر تم پیچ دار بناو گے اپنی زبانوں کو ( جھوٹی ) گواہی دے کر ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ رماتے ہیں۔ قال تلوی لسانک بغیر الحق وہی اللجلجۃ فلا تقیم الشہادۃ علی وجہہا یعنی مراد یہ ہے کہ تو اپنی زبان کو حق بات سے پھیر کر توڑ مروڑ کر بولے کہ جس سے گواہی صحیح طور پر ادا نہ ہوسکے۔ شارع علیہ السلام کا مقصد یہ ہے جہاں حق اور صداقت کی گواہی کا موقع ہو وہاں کھل کر صاف صاف لفظوں میں گواہی کا فرض ادا کرنا چاہئے۔ کنایہ استعارہ اشارہ وغیرہ ایسے مواقع پر درست نہیںہیں۔
2653.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ شعبہ سے اس روایت کے بیان کرنے میں غندر، ابو عامر، بہز اور عبدالصمد نے وہب بن جریر کی متابعت کی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2561
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2653
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2653
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2653
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں: ٭ جھوٹی گواہی کی مذمت ٭ گواہی چھپانے کی برائی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں کے متعلق قرآنی آیات پیش کی ہیں جن میں بیان ہوا کہ جھوٹی گواہی نہ دینا قابل تعریف اور گواہی چھپانا بری بات ہے۔ سورۂ نساء میں ہے: (وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿١٣٥﴾) "اور اگر تم گول مول بات کرو یا سچائی سے روگردانی کرو تو آگاہ رہو جو تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔" (النساء135:4) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ گواہی دیتے اپنی زبان صحیح استعمال نہ کی جائے یا اس سے بالکل روگردانی کی جائے۔ جھوٹی گواہی دینا اور سچی گواہی سے اعراض کرنا دونوں ابطالِ حق کے اسباب ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بتاتے ہوئے فرمایا ہے: "جھوٹی گواہی کا عام ہونا اور حق کی گواہی چھپانا بھی علامات قیامت میں سے ہے۔" (فتح الباری:5/323،ومسند احمد:1/408)
اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ فرقان میں ) فرمایا بہشت کا بالاخانہ ان کو ملے گا جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ اسی طرح گواہی کو چھپانا بھی گناہ ہے ۔ ( اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ) گواہی کو نہ چھپاو ، اور جس شخص نے گواہی کو چھپایا تو اس کے دل میں کھوٹ ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو تم کرتے ہو ۔ ( اور اللہ تعالیٰ کافرمان سورۃ نساءمیں کہ ) اگر تم پیچ دار بناو گے اپنی زبانوں کو ( جھوٹی ) گواہی دے کر ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ رماتے ہیں۔ قال تلوی لسانک بغیر الحق وہی اللجلجۃ فلا تقیم الشہادۃ علی وجہہا یعنی مراد یہ ہے کہ تو اپنی زبان کو حق بات سے پھیر کر توڑ مروڑ کر بولے کہ جس سے گواہی صحیح طور پر ادا نہ ہوسکے۔ شارع علیہ السلام کا مقصد یہ ہے جہاں حق اور صداقت کی گواہی کا موقع ہو وہاں کھل کر صاف صاف لفظوں میں گواہی کا فرض ادا کرنا چاہئے۔ کنایہ استعارہ اشارہ وغیرہ ایسے مواقع پر درست نہیںہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ شعبہ سے اس روایت کے بیان کرنے میں غندر، ابو عامر، بہز اور عبدالصمد نے وہب بن جریر کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اور(اللہ کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ "نیز گواہی چھپانے کے متعلق فرمان الٰہی ہے: "گواہی کو ہر گز نہ چھپاؤ(کیونکہ جو شخص شہادت کو چھپاتا ہے بلاشبہ اس کا دل گناہ گار ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے )خوب جانتا ہے: "قرآن کریم میں ہے کہ "(اگر ) تم گول مول بات کرو۔ "اس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنی زبانوں کو گواہی کے لیے پیچیدہ کرو گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا ہم نے وہب بن جریر اور عبدالملک بن ابراہیم سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن انس نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا۔ اس روایت کی متابعت غندر، ابوعامر، بہز اور عبدالصمد نے شعبہ سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
کبیرہ گناہ اور بھی بہت ہیں۔ یہاں روایت کے لانے سے حضرت امام کا مقصد جھوٹی گواہی کی مذمت کرنا ہے کہ یہ بھی کبیرہ گناہوں میں داخل ہے جس کی مذمت میں اور بھی بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ بلکہ جھوٹ بولنے، جھوٹی گواہی دینے کو اکبرالکبائر میں شمار کیاگیا ہے۔ یعنی بہت ہی بڑا کبیرہ گناہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) was asked about the great sins He said, "They are:-- (1) To join others in worship with Allah, (2) To be undutiful to one's parents. (3) To kill a person (which Allah has forbidden to kill) (i.e. to commit the crime of murdering). (4) And to give a false witness."