باب: اس شخص سے متعلق جس نے غسل میں اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی گرایا۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Pouring water with one's right hand over the left one, during the bath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
266.
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دو یا تین مرتبہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ بعد ازاں آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر آپ نے اپنا چہرہ اور اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا اور بدن پر پانی بہایا۔ پھر آپ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جس معاملے میں ایک ہاتھ سے کام نہیں چلتا، بلکہ دونوں ہاتھ استعمال ہوتے ہیں، وہاں گھٹیا کام بائیں ہاتھ سے متعلق ہو گا۔ جیسا کہ استنجے کا معاملہ ہے، اس میں نجاست کا ازالہ بائیں ہاتھ سے ہو گا، دائیں ہاتھ سے اس کی شرافت کے پیش نظر پانی ڈالنے کا کام لیا جائے گا۔ اس مقام پر اعتراض کیا گیا ہے کہ دعوی عام ہے، لیکن جس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے وہ خاص ہے، یعنی اس کا تعلق صرف استنجے کی صورت سے ہے، اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ استنجے والی صورت تو حدیث الباب سے ثابت ہو گئی اور اس کے علاوہ دوسری صورتیں دوسری معروف احادیث سے پہلے ہی معلوم ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرنے کو محبوب رکھتے تھے اور یہاں وہ صورت مراد ہو گی کہ چوڑے منہ والے برتن سے پانی چلو کے ذریعے سے نکالا جائے تو ظاہر ہے کہ اس برتن کو دائیں جانب رکھ کر دائیں ہاتھ سے پانی نکالیں گے اور بائیں ہاتھ پر ڈالیں گے۔ اگر تنگ منہ والا برتن ہو جس سے چلو نہ بھرا جاسکتا ہو تو اسے بائیں جانب رکھیں گے، پھر اسے جھکا کر دائیں ہاتھ میں پانی لیں گے۔ جیسا کہ خطابی نے وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:488/1) علامہ خطابی کی وضاحت کو کرمانی نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (شرح الکرماني:129/1) 2۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے جسم صاف کرنے کے لیے کپڑا نہ لینے کا اشارہ فرمایا۔ آگے وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ آپ ﷺ نے واپس نہیں کیا یہ ترجمہ صحیح نہیں، کیونکہ مسند امام احمد میں مزید وضاحت ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ میں لینا نہیں چاہتا اور حدیث میمونہ کے ایک طریق میں ہے کہ میں نے آپ کو کپڑا دیا لیکن آپ نے نہ لیا۔ (فتح الباري:488/1) 3۔ اس روایت میں ہے کہ اعمش کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں، حالانکہ اس سے پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ عبد الواحد جب اعمش سے بیان کرتے ہیں تو دو یا تین مرتبہ میں شک کو بیان کرتے ہیں اور جب حضرت ابن فضیل اعمش سے بیان کرتے ہیں تو وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن فضیل جب اعمش سے روایت کرتے ہیں تو اس وقت اعمش کا شک دور ہو گیا ہو گا، کیونکہ اعمش سے ابن فضیل کا سماع بعد کا ہے، بغیر شک کے تین مرتبہ ہاتھوں پر پانی ڈالنے کی روایت کو ابو عوانہ نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:488/1) 4۔ شریعت مطہرہ کے اصول کی روسے جو کام تکریم و زینت سے تعلق رکھتے ہیں انھیں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً: مسجد میں داخل ہونا، مصافحہ کرنا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، بالوں میں کنگھی کرنا، کپڑا زیب تن کرنا، سلام پھیرنا، اعضائےطہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، حجراسود کا استلام کرنا وغیرہ، باقی جو باتیں ان کی ضد ہیں یا بری جگہوں سے متعلق ہیں یا ایسے کام جو ادنی ہیں تو وہاں بائیں کو دائیں پر مقدم کرنا چاہیے، مثلاً: بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، ناک صاف کرنا، استنجا کرنا، جوتا اتارنا ان میں تیامن (دائیں جانب اختیار کرنے) کے بجائےتیاسر (بائیں جانب اختیار کرنا) مستحب ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
268
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
266
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
266
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
265
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
استنجا کرتے وقت دونوں ہاتھوں سے کام لیا جاتا ہے دائیں ہاتھ سے پانی ڈالا جاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے استنجا کیا جاتا ہے۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ استنجا میں دائیں ہاتھ کی مشغولیت اس کی شرافت کے خلاف ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کر کے بتایا ہے کہ دائیں ہاتھ کی شرافت ہی کی وجہ سے بحالت استنجا عضو مستور کو چھونے کا معاملہ بائیں ہاتھ سے تعلق رہا اور پانی ڈالنے کاکام دائیں ہاتھ سے لیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دو یا تین مرتبہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ بعد ازاں آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر آپ نے اپنا چہرہ اور اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا اور بدن پر پانی بہایا۔ پھر آپ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور دونوں پاؤں دھوئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جس معاملے میں ایک ہاتھ سے کام نہیں چلتا، بلکہ دونوں ہاتھ استعمال ہوتے ہیں، وہاں گھٹیا کام بائیں ہاتھ سے متعلق ہو گا۔ جیسا کہ استنجے کا معاملہ ہے، اس میں نجاست کا ازالہ بائیں ہاتھ سے ہو گا، دائیں ہاتھ سے اس کی شرافت کے پیش نظر پانی ڈالنے کا کام لیا جائے گا۔ اس مقام پر اعتراض کیا گیا ہے کہ دعوی عام ہے، لیکن جس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے وہ خاص ہے، یعنی اس کا تعلق صرف استنجے کی صورت سے ہے، اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ استنجے والی صورت تو حدیث الباب سے ثابت ہو گئی اور اس کے علاوہ دوسری صورتیں دوسری معروف احادیث سے پہلے ہی معلوم ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرنے کو محبوب رکھتے تھے اور یہاں وہ صورت مراد ہو گی کہ چوڑے منہ والے برتن سے پانی چلو کے ذریعے سے نکالا جائے تو ظاہر ہے کہ اس برتن کو دائیں جانب رکھ کر دائیں ہاتھ سے پانی نکالیں گے اور بائیں ہاتھ پر ڈالیں گے۔ اگر تنگ منہ والا برتن ہو جس سے چلو نہ بھرا جاسکتا ہو تو اسے بائیں جانب رکھیں گے، پھر اسے جھکا کر دائیں ہاتھ میں پانی لیں گے۔ جیسا کہ خطابی نے وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:488/1) علامہ خطابی کی وضاحت کو کرمانی نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (شرح الکرماني:129/1) 2۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے جسم صاف کرنے کے لیے کپڑا نہ لینے کا اشارہ فرمایا۔ آگے وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ آپ ﷺ نے واپس نہیں کیا یہ ترجمہ صحیح نہیں، کیونکہ مسند امام احمد میں مزید وضاحت ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ میں لینا نہیں چاہتا اور حدیث میمونہ کے ایک طریق میں ہے کہ میں نے آپ کو کپڑا دیا لیکن آپ نے نہ لیا۔ (فتح الباري:488/1) 3۔ اس روایت میں ہے کہ اعمش کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں، حالانکہ اس سے پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ عبد الواحد جب اعمش سے بیان کرتے ہیں تو دو یا تین مرتبہ میں شک کو بیان کرتے ہیں اور جب حضرت ابن فضیل اعمش سے بیان کرتے ہیں تو وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن فضیل جب اعمش سے روایت کرتے ہیں تو اس وقت اعمش کا شک دور ہو گیا ہو گا، کیونکہ اعمش سے ابن فضیل کا سماع بعد کا ہے، بغیر شک کے تین مرتبہ ہاتھوں پر پانی ڈالنے کی روایت کو ابو عوانہ نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:488/1) 4۔ شریعت مطہرہ کے اصول کی روسے جو کام تکریم و زینت سے تعلق رکھتے ہیں انھیں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً: مسجد میں داخل ہونا، مصافحہ کرنا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، بالوں میں کنگھی کرنا، کپڑا زیب تن کرنا، سلام پھیرنا، اعضائےطہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، حجراسود کا استلام کرنا وغیرہ، باقی جو باتیں ان کی ضد ہیں یا بری جگہوں سے متعلق ہیں یا ایسے کام جو ادنی ہیں تو وہاں بائیں کو دائیں پر مقدم کرنا چاہیے، مثلاً: بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، ناک صاف کرنا، استنجا کرنا، جوتا اتارنا ان میں تیامن (دائیں جانب اختیار کرنے) کے بجائےتیاسر (بائیں جانب اختیار کرنا) مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ ابن عباس ؓ کے مولیٰ کریب سے، انھوں نے ابن عباس ؓ سے، انھوں نے میمونہ بنت حارث ؓ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے لیے (غسل کا) پانی رکھا اور پردہ کر دیا، آپ نے (پہلے غسل میں) اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور اسے ایک یا دو بار دھویا۔ سلیمان اعمش کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں راوی (سالم بن ابی الجعد) نے تیسری بار کا بھی ذکر کیا یا نہیں۔ پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالا۔ اور شرمگاہ دھوئی، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا۔ پھر سارے بدن پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف سرک کر دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد میں میں نے ایک کپڑا دیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ اسے ہٹاؤ اور آپ نے اس کپڑے کا ارادہ نہیں فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
امام احمد ؒ کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا۔ آداب غسل سے ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کرپہلے خوب اچھی طرح سے استنجاء کرلیا جائے۔ ترجمہ باب حدیث سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna bint Al-Harith (RA): I placed water for the bath of Allah's Apostle (ﷺ) and put a screen. He poured water over his hands, and washed them once or twice. (The subnarrator added that he did not remember if she had said thrice or not). Then he poured water with his right hand over his left one and washed his private parts. He rubbed his hand over the earth or the wall and washed it. He rinsed his mouth and washed his nose by putting water in it and blowing it out. He washed his face, forearms and head. He poured water over his body and then withdrew from that place and washed his feet. I presented him a piece of cloth (towel) and he pointed with his hand (that he does not want it) and did not take it.