باب : جب ایک مرددوسرے مرد کو اچھا کہے تو یہ کافی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: If only one man attests the conduct of another)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابو جمیلہ نے کہا کہ میں نے ایک لڑکا راستے میں پڑا ہوا پایا ۔ جب مجھے حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو فرمایا ، ایسا نہ ہو یہ غار آفت کا غار ہو ، گویا انہوں نے مجھ پر برا گمان کیا ، لیکن میرے قبیلہ کے سردار نے کہا کہ یہ صالح آدمی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ایسی بات ہے تو پھر اس بچے کو لے جا ، اس کا نفقہ ہمارے ( بیت المال کے ) ذمے رہے گا ۔ تشریح : یعنی ایک شخص کا تزکیہ کافی ہے اور شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک کم سے کم دو شخص تزکیہ کے لیے ضروری ہیں۔ غار کی مثال عرب میں اس موقع پر کہی جاتی ہے جہاں ظاہر میں سلامتی کی امید ہو اور درپردہ اس میں ہلاکت ہو۔ ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگ جان بچانے کو ایک غار میں جاکر چھپے، وہ غار ان پر گرپڑا تھا یا دشمن نے وہیں آکر ان کو آلیا۔ جب سے یہ مثل جاری ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ گئے کہ اس نے حرام کاری نہ کی ہو اور یہ لڑکا اس کا نطفہ ہو مگر ایک شخص کی گواہی پر آپ کا دل صاف ہوگیا اور آپ نے اس بچے کا بیت المال سے وظیفہ جاری کردیا۔ تعدیل کا مطلب یہ کہ کسی آدمی کی عمدہ عادات و خصائل اور اس کی صداقت اور سنجیدگی پر گواہی دینا، اصطلاح محدثین میں تعدیل کا یہی مطلب ہے کہ کسی راوی کی ثقاہت ثابت کرنا۔
2662.
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس کسی دوسرے شخص کی تعریف کی تو آپ نے کئی مرتبہ فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہے!تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔‘‘ پھر آپ نے تلقین فرمائی: ’’تم میں سے اگرکوئی اپنے بھائی کی ضرور تعریف کرنا چاہتا ہے تو اسے یوں کہنا چاہیے کہ اللہ ہی فلاں شخص کے متعلق صحیح علم رکھتا ہے۔ میں اس کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہراتا۔ میں اسے ایسا ایسا گمان کرتا ہوں بشرط یہ کہ وہ اس کی اس خوبی سے واقف ہو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفائی دینے والا ایک مرد ہی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرد کی صفائی کا اعتبار کیا ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس کی صفائی میں حد سے زیادہ بڑھنے کی بجائے حق گوئی سے کام لے۔ اگر کوئی شخص اپنی تعریف سن کر فخر میں آ جائے تو ایسے شخص کی تعریف سے بچنا چاہیے اور جس شخص سے اس کے کمال تقویٰ کے باعث فخر و تکبر کا خطرہ نہ ہو اس کی صفائی دینے اور تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’اصل علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے علم کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہرایا جا سکتا، البتہ اس شخص کے متعلق میں اچھا گمان رکھتا ہوں۔‘‘ (2) کسی آدمی کی منہ پر تعریف کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کے فخر میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو، البتہ تعریف میں حد سے بڑھنا بہرحال ممنوع ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ اس کے متعلق ایک دوسرا عنوان قائم کرتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2570
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2662
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2662
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2662
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس واقعے کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: آپ نے اس بچے کو کیوں اٹھایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ضائع ہو جائے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:6/202،201) واقعہ یوں ہے کہ ابو جمیلہ نامی آدمی کو ایک بچہ ملا جسے اس کے والدین نے پھینک دیا تھا۔ انہوں نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے اٹھا لیا اور اسے پالنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید اس کی بدکاری کا بچہ ہو اور اس نے لقیط مشہور کر کے اٹھایا ہو، اس لیے انہوں نے فرمایا: یہ کوشش کہیں تمہارے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ جب ان کے نیک ہونے کی گواہی ملی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور فرمایا: بچے کی پرورش کرو، اس کا خرچہ بیت المال برداشت کرے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات کسی ادمی کو الزام سے بری قرار دینے کے لیے ایک مرد کی گواہی ہی کافی ہوتی ہے۔
اور ابو جمیلہ نے کہا کہ میں نے ایک لڑکا راستے میں پڑا ہوا پایا ۔ جب مجھے حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو فرمایا ، ایسا نہ ہو یہ غار آفت کا غار ہو ، گویا انہوں نے مجھ پر برا گمان کیا ، لیکن میرے قبیلہ کے سردار نے کہا کہ یہ صالح آدمی ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ ایسی بات ہے تو پھر اس بچے کو لے جا ، اس کا نفقہ ہمارے ( بیت المال کے ) ذمے رہے گا ۔ تشریح : یعنی ایک شخص کا تزکیہ کافی ہے اور شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک کم سے کم دو شخص تزکیہ کے لیے ضروری ہیں۔ غار کی مثال عرب میں اس موقع پر کہی جاتی ہے جہاں ظاہر میں سلامتی کی امید ہو اور درپردہ اس میں ہلاکت ہو۔ ہوا یہ تھا کہ کچھ لوگ جان بچانے کو ایک غار میں جاکر چھپے، وہ غار ان پر گرپڑا تھا یا دشمن نے وہیں آکر ان کو آلیا۔ جب سے یہ مثل جاری ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سمجھ گئے کہ اس نے حرام کاری نہ کی ہو اور یہ لڑکا اس کا نطفہ ہو مگر ایک شخص کی گواہی پر آپ کا دل صاف ہوگیا اور آپ نے اس بچے کا بیت المال سے وظیفہ جاری کردیا۔ تعدیل کا مطلب یہ کہ کسی آدمی کی عمدہ عادات و خصائل اور اس کی صداقت اور سنجیدگی پر گواہی دینا، اصطلاح محدثین میں تعدیل کا یہی مطلب ہے کہ کسی راوی کی ثقاہت ثابت کرنا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس کسی دوسرے شخص کی تعریف کی تو آپ نے کئی مرتبہ فرمایا: ’’تجھ پر افسوس ہے!تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔‘‘ پھر آپ نے تلقین فرمائی: ’’تم میں سے اگرکوئی اپنے بھائی کی ضرور تعریف کرنا چاہتا ہے تو اسے یوں کہنا چاہیے کہ اللہ ہی فلاں شخص کے متعلق صحیح علم رکھتا ہے۔ میں اس کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہراتا۔ میں اسے ایسا ایسا گمان کرتا ہوں بشرط یہ کہ وہ اس کی اس خوبی سے واقف ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صفائی دینے والا ایک مرد ہی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرد کی صفائی کا اعتبار کیا ہے لیکن ضروری ہے کہ وہ اس کی صفائی میں حد سے زیادہ بڑھنے کی بجائے حق گوئی سے کام لے۔ اگر کوئی شخص اپنی تعریف سن کر فخر میں آ جائے تو ایسے شخص کی تعریف سے بچنا چاہیے اور جس شخص سے اس کے کمال تقویٰ کے باعث فخر و تکبر کا خطرہ نہ ہو اس کی صفائی دینے اور تعریف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’اصل علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے علم کے مقابلے میں کسی کو پاک نہیں ٹھہرایا جا سکتا، البتہ اس شخص کے متعلق میں اچھا گمان رکھتا ہوں۔‘‘ (2) کسی آدمی کی منہ پر تعریف کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کے فخر میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو، البتہ تعریف میں حد سے بڑھنا بہرحال ممنوع ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ اس کے متعلق ایک دوسرا عنوان قائم کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ابو جمیلہ نے کہا: مجھے ایک گرا پڑا بچہ ملا۔ جب مجھے حضرت عمر ؓ نے دیکھا توفرمایا: اسے بچانے کی کوشش تمہارے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ گویا وہ مجھے متہم کررہے تھے۔ میرے سردار نے ان سے کہا: ایسی کوئی بات نہیں، یہ ایک پارسا انسان ہیں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر معاملہ اسی طرح ہے تو اسے لے جاؤ، اس کا خرچہ ہمارے ذمے ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا افسوس! تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی۔ تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ ڈالی۔ کئی مرتبہ (آپ ﷺ نے اسی طرح فرمایا) پھر فرمایا کہ اگر کسی کے لیے اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنی ضروری ہوجائے تو یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں، آگے اللہ خوب جانتا ہے، میں اللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں کہہ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں وہ ایسا ایسا ہے اگر اس کا حال جانتا ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakra (RA): A man praised another man in front of the Prophet (ﷺ) . The Prophet (ﷺ) said to him, "Woe to you, you have cut off your companion's neck, you have cut off your companion's neck," repeating it several times and then added, "Whoever amongst you has to praise his brother should say, 'I think that he is so and so, and Allah knows exactly the truth, and I do not confirm anybody's good conduct before Allah, but I think him so and so,' if he really knows what he says about him."