باب : دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The defendant must take an oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺنے ( مدعی سے ) فرمایا کہ تم اپنے دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ( کوفہ کے قاضی ) ابن شبرمہ نے بیان کیا کہ ( مدینہ کے قاضی ) ابوالزناد نے مجھ سے مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کے ( نافذ ہوجانے کے ) بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیا کرو پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، جن گواہوں سے کہ تم مطمئن ہو ، تاکہ اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے “ ۔ میں نے کہا کہ اگر مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کافی ہوتی تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے ۔ دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے ؟ تشریح:ابوالزناد جن کا اوپر ذکر ہوا مدینہ کے قاضی اور امام مالک کے استاد ہیں۔ اہل مدینہ ، امام شافعی ، احمد اور اہل حدیث سب اس کے قائل ہیں کہ اگر مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کردیںگے۔ مدعی کی قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوجائے گی اور یہ امر حدیث صحیح سے ثابت ہے جس کو امام مسلم نے ابن عباس سے نکالا کہ آنحضرتﷺنے ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کیا اور اصحاب سنن نے اس کو ابوہریرہ اور جابر سے نکالا۔ ابن خزیمہ نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن شبرمہ کوفہ کے قاضی تھے۔ اہل کوفہ جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے جائز نہیں کہتے اور صحیح حدیث کے برخلاف آیت قرآن سے استدلال کرتے ہیں۔ حالانکہ آیت قرآن حدیث کے برخلاف نہیں ہوسکتی اور قرآن کا جاننے والا اور سمجھنے والا آنحضرتﷺ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ ( وحیدی ) آیت سے ابن شبرمہ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید میں معاملہ کرنے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ معاملہ کرتے وقت دو مردوں یا ایک مردو و دو عورتوں کو گواہ کرلیں۔ دو عورتیں اس لیے رکھی ہیں کہ وہ ناقص العقل اور ناقص الحفظ ہوتی ہیں۔ ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ ظاہر ہے کہ مدعی سے جو قسم لی جاتی ہے وہ اسی وقت جب نصاب شہادت کا پورا نہ ہو، اگر ایک مرد اور دو عورتیں یا دو مرد موجود ہوں تب مدعی سے قسم لینے کی ضرورت نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا، یمین مع الشاہد کی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں بیان ہے اس امر کا جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس کے پیغمبر کے حکم پر چلیں اور جس چیز سے آپ نے منع فرمایا ہے اس سے باز رہیں۔ میں ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہوں قرآن میں تو یہ ذکر ہے کہ اپنے پاؤں وضو میں دھوؤ، پھر حنفیہ موزوں پر مسح کیوں جائز کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں یہ ذکر ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو تیمم کرو اور حنفیہ اس کے برخلاف ایک ضعیف حدیث کی رو سے نبےذ تمر سے وضو کیوں جائز سمجھتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ نبےذتمر کی ضعیف اور مجہول حدیث ضعیف قرار دے کر اس سے کتاب اللہ پرزیادتی جائز سمجھتے ہیں اور یمین مع الشاہد کی صحیح اور مشہور حدیث کو رد کرتے ہیں۔ وہل ہذا لا ظلم عظیم منہ۔ ( وحیدی ) حدیث ہذا کے ذیل میں مرحوم لکھتے ہیں یعنی جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں۔ بیہقی نے عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مرفوعاً یوں نکالا البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر معلوم ہوا کہ مدعیٰ علیہ پر ہر حال میں قسم کھانا لازم ہوگا۔ جب مدعی کے پاس شہادت نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعی علیہ میں اختلاط اور ربط ہو یا نہ ہو۔ امام شافعی، اہل حدیث اور جمہور علماءکا یہی قول ہے، لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ مدعیٰ علیہ سے اسی وقت قسم لی جائے گی جب اس میں اور مدعی میں ارتباط اور معاملات ہوں۔ ورنہ ہر شخص شریف آدمیوں کو قسم کھلانے کے لیے جھوٹے دعوے ان پرکرے گا۔ ( وحیدی )
2668.
حضرت ابن ابی ملیکہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے خط لکھا کہ نبی کریم ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قسم مدعی علیہ کے ذمے ہوگی۔
تشریح:
(1) حدیث میں ہے کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے، اگر وہ گواہ پیش نہ کر سکے تو انکار کرنے والے سے قسم لے کر فیصلہ ہو گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعا علیہ پر ہر حال میں قسم اٹھانا ہی لازم ہے بشرطیکہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعا علیہ میں میل جول اور تعلق ہو یا نہ ہو۔ (2) امام مالک ؒ کہتے ہیں: مدعا علیہ سے اس وقت قسم لی جائے گی جب دونوں میں معاملات کا تبادلہ اور دیگر لین دین ہو ورنہ ہر شخص کسی شریف آدمی کو قسم اٹھانے پر مجبور کرتا رہے گا، خواہ اس پر جھوٹا دعویٰ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ دیوانی یا فوجداری دونوں قسم کے مقدمات میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی کیونکہ احادیث میں اس کے متعلق کوئی فرق نہیں ہے، انہیں اپنے عموم پر رکھا جائے گا۔ ہمارا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2575
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2668
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2668
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2668
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
ابو زناد کا موقف یہ ہے کہ اگر مدعی کے پاس دو گواہ نہ ہوں صرف ایک گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم،الاقضیۃ،حدیث:4472(1712)) اہل مدینہ کا عمل بھی اس پر ہے۔ لیکن ابن شبرمہ کا موقف یہ ہے کہ ایک گواہ اور قسم فیصلے کے لیے کافی نہیں بلکہ مدعی دو گواہ پیش کرے، بصورت دیگر مدعا علیہ سے قسم لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اگر مدعی کی طرف سے ایک گواہ اور قسم کافی ہوتی تو پھر قرآن مجید میں دوسری عورت کی قید کیوں لگائی جاتی؟ دو عورتوں کو گواہی کے لیے ضروری قرار دینا اور پھر یہ وجہ بیان کرنا کہ ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی خاص اہمیت ہے۔ لیکن ابن شبرمہ رحمہ اللہ کا استدلال محل نظر ہے کیونکہ قرآن مجید میں مستقل نصاب شہادت ذکر کیا گیا کہ ایک مرد دو عورتیں اور حدیث میں ایک دوسرا نصاب یوں ذکر کیا گیا: ایک مرد + مدعی کی قسم۔ اس لیے دونوں میں کوئی تعارض نہیں بلکہ اپنی اپنی جگہ پر مستقل نصاب شہادت ہے۔
اور نبی کریمﷺنے ( مدعی سے ) فرمایا کہ تم اپنے دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ( کوفہ کے قاضی ) ابن شبرمہ نے بیان کیا کہ ( مدینہ کے قاضی ) ابوالزناد نے مجھ سے مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کے ( نافذ ہوجانے کے ) بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیا کرو پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، جن گواہوں سے کہ تم مطمئن ہو ، تاکہ اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے “ ۔ میں نے کہا کہ اگر مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کافی ہوتی تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے ۔ دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے ؟ تشریح:ابوالزناد جن کا اوپر ذکر ہوا مدینہ کے قاضی اور امام مالک کے استاد ہیں۔ اہل مدینہ ، امام شافعی ، احمد اور اہل حدیث سب اس کے قائل ہیں کہ اگر مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کردیںگے۔ مدعی کی قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوجائے گی اور یہ امر حدیث صحیح سے ثابت ہے جس کو امام مسلم نے ابن عباس سے نکالا کہ آنحضرتﷺنے ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کیا اور اصحاب سنن نے اس کو ابوہریرہ اور جابر سے نکالا۔ ابن خزیمہ نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن شبرمہ کوفہ کے قاضی تھے۔ اہل کوفہ جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے جائز نہیں کہتے اور صحیح حدیث کے برخلاف آیت قرآن سے استدلال کرتے ہیں۔ حالانکہ آیت قرآن حدیث کے برخلاف نہیں ہوسکتی اور قرآن کا جاننے والا اور سمجھنے والا آنحضرتﷺ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ ( وحیدی ) آیت سے ابن شبرمہ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید میں معاملہ کرنے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ معاملہ کرتے وقت دو مردوں یا ایک مردو و دو عورتوں کو گواہ کرلیں۔ دو عورتیں اس لیے رکھی ہیں کہ وہ ناقص العقل اور ناقص الحفظ ہوتی ہیں۔ ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ ظاہر ہے کہ مدعی سے جو قسم لی جاتی ہے وہ اسی وقت جب نصاب شہادت کا پورا نہ ہو، اگر ایک مرد اور دو عورتیں یا دو مرد موجود ہوں تب مدعی سے قسم لینے کی ضرورت نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا، یمین مع الشاہد کی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں بیان ہے اس امر کا جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس کے پیغمبر کے حکم پر چلیں اور جس چیز سے آپ نے منع فرمایا ہے اس سے باز رہیں۔ میں ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہوں قرآن میں تو یہ ذکر ہے کہ اپنے پاؤں وضو میں دھوؤ، پھر حنفیہ موزوں پر مسح کیوں جائز کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں یہ ذکر ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو تیمم کرو اور حنفیہ اس کے برخلاف ایک ضعیف حدیث کی رو سے نبےذ تمر سے وضو کیوں جائز سمجھتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ نبےذتمر کی ضعیف اور مجہول حدیث ضعیف قرار دے کر اس سے کتاب اللہ پرزیادتی جائز سمجھتے ہیں اور یمین مع الشاہد کی صحیح اور مشہور حدیث کو رد کرتے ہیں۔ وہل ہذا لا ظلم عظیم منہ۔ ( وحیدی ) حدیث ہذا کے ذیل میں مرحوم لکھتے ہیں یعنی جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں۔ بیہقی نے عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مرفوعاً یوں نکالا البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر معلوم ہوا کہ مدعیٰ علیہ پر ہر حال میں قسم کھانا لازم ہوگا۔ جب مدعی کے پاس شہادت نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعی علیہ میں اختلاط اور ربط ہو یا نہ ہو۔ امام شافعی، اہل حدیث اور جمہور علماءکا یہی قول ہے، لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ مدعیٰ علیہ سے اسی وقت قسم لی جائے گی جب اس میں اور مدعی میں ارتباط اور معاملات ہوں۔ ورنہ ہر شخص شریف آدمیوں کو قسم کھلانے کے لیے جھوٹے دعوے ان پرکرے گا۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن ابی ملیکہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابن عباس ؓ نے مجھے خط لکھا کہ نبی کریم ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قسم مدعی علیہ کے ذمے ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں ہے کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے، اگر وہ گواہ پیش نہ کر سکے تو انکار کرنے والے سے قسم لے کر فیصلہ ہو گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعا علیہ پر ہر حال میں قسم اٹھانا ہی لازم ہے بشرطیکہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعا علیہ میں میل جول اور تعلق ہو یا نہ ہو۔ (2) امام مالک ؒ کہتے ہیں: مدعا علیہ سے اس وقت قسم لی جائے گی جب دونوں میں معاملات کا تبادلہ اور دیگر لین دین ہو ورنہ ہر شخص کسی شریف آدمی کو قسم اٹھانے پر مجبور کرتا رہے گا، خواہ اس پر جھوٹا دعویٰ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ دیوانی یا فوجداری دونوں قسم کے مقدمات میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی کیونکہ احادیث میں اس کے متعلق کوئی فرق نہیں ہے، انہیں اپنے عموم پر رکھا جائے گا۔ ہمارا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ ابو الزناد نے مجھ سے ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے متعلق گفتگو کی تو میں نے کہا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے مردوں میں سے دو گواہ بناؤ۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، ان لوگوں میں سے ہوں جن کو تم گواہی کے لیے پسند کرتے ہو، تاکہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔ "میں نے کہا: اگر ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم کافی ہوتی تو ان میں سے ایک کے دوسرے کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی، ایسےحالات میں دوسری عورت کے یاد دلانے سے کیا فائدہ ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ نے لکھا تھا ’’نبی کریم ﷺ نے مدعیٰ علیہ کے لیے قسم کھانے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abu Mulaika (RA): Ibn 'Abbas (RA) wrote that the Prophet (ﷺ) gave his verdict on the basis of the defendant's oath.