باب : جس مدعی نے ( مدعیٰ علیہ کی ) قسم کھالینے کے بعد گواہ پیش کیے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The proof after (the defendant) has taken the oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تو اس کے گواہ قبول ہوں گے، اہل کوفہ، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اگر مدعی کو اپنے گواہوں کا علم نہ تھا اور اس نے مدعیٰ علیہ سے قسم لے لی، پھر گواہوں کا علم ہوا تو گواہ قبول ہوں گے اور جو گواہوں کا علم ہوتے ہوئے اس نے گواہ پیش نہیں کئے اورقسم لے لی تو اب گواہ منظور نہیںہوں گے۔ ( وحیدی ) ترجمہ: اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ ( مدعی اور مدعیٰ علیہ میں کوئی ) ایک دوسرے سے بہتر طریقہ پر اپنا مقدمہ پیش کرسکتا ہو ۔ طاؤس ، ابراہیم اور شریح نے کہا کہ عادل گواہ جھوٹی قسم کے مقابلے میں قبول کیے جانے کا زیادہ مستحق ہے ۔
2680.
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔ اس میں معاملات و عقود برابر ہیں۔ اس پر سب علماء کا اتفاق ہے، لہذا اگر دو جھوٹے گواہ کسی شخص کے لیے مال کی گواہی دیں اور قاضی بظاہر ان کی سچائی پر فیصلہ کر دے تو جس کے لیے مال کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ مال حلال نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر جھوٹے گواہ کسی پر قتل کی گواہی دیں تو مقتول کے وارث کے لیے جائز نہیں کہ اس سے قصاص لے جبکہ اسے گواہوں کے جھوٹے ہونے کا علم ہو۔ (2) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں: حدیث میں موجود صورت حال اس وقت متصور ہو گی کہ قسم اٹھانے کے بعد گواہ پیش کیے جائیں۔ شارح بخاری ابن منیر ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے لیے حلال یا اپنا حق اس پر ثابت نہیں کر سکتا۔ وہ چیز قسم اٹھانے کے بعد بھی اس پر حرام رہے گی۔ قسم اٹھانے سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں وہ چیز حق دار کی ہے اگر وہ گواہی لے آئے۔ (فتح الباري:355/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2585
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2680
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2680
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2680
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی باب کے تحت خود متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ اگر مدعا علیہ کے قسم اٹھا لینے کے بعد مدعی نے اپنے گواہ پیش کر دیے تو کیا حکم ہے؟ جمہور اہل علم کا فیصلہ ہے کہ قسم کے بعد بھی گواہ قبول کئے جائیں گے، البتہ امام ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: مدعا علیہ سے قسم لینے کے بعد گواہوں کا اعتبار نہیں ہو گا۔ (عمدۃ القاری:9/360)
تو اس کے گواہ قبول ہوں گے، اہل کوفہ، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اگر مدعی کو اپنے گواہوں کا علم نہ تھا اور اس نے مدعیٰ علیہ سے قسم لے لی، پھر گواہوں کا علم ہوا تو گواہ قبول ہوں گے اور جو گواہوں کا علم ہوتے ہوئے اس نے گواہ پیش نہیں کئے اورقسم لے لی تو اب گواہ منظور نہیںہوں گے۔ ( وحیدی ) ترجمہ: اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ ( مدعی اور مدعیٰ علیہ میں کوئی ) ایک دوسرے سے بہتر طریقہ پر اپنا مقدمہ پیش کرسکتا ہو ۔ طاؤس ، ابراہیم اور شریح نے کہا کہ عادل گواہ جھوٹی قسم کے مقابلے میں قبول کیے جانے کا زیادہ مستحق ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔ اس میں معاملات و عقود برابر ہیں۔ اس پر سب علماء کا اتفاق ہے، لہذا اگر دو جھوٹے گواہ کسی شخص کے لیے مال کی گواہی دیں اور قاضی بظاہر ان کی سچائی پر فیصلہ کر دے تو جس کے لیے مال کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ مال حلال نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر جھوٹے گواہ کسی پر قتل کی گواہی دیں تو مقتول کے وارث کے لیے جائز نہیں کہ اس سے قصاص لے جبکہ اسے گواہوں کے جھوٹے ہونے کا علم ہو۔ (2) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں: حدیث میں موجود صورت حال اس وقت متصور ہو گی کہ قسم اٹھانے کے بعد گواہ پیش کیے جائیں۔ شارح بخاری ابن منیر ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے لیے حلال یا اپنا حق اس پر ثابت نہیں کر سکتا۔ وہ چیز قسم اٹھانے کے بعد بھی اس پر حرام رہے گی۔ قسم اٹھانے سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں وہ چیز حق دار کی ہے اگر وہ گواہی لے آئے۔ (فتح الباري:355/5)
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "شاید تم میں سے کوئی دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو، یعنی وہ بہتر طریقے سے اپنا مقدمہ پیش کرسکتا ہو۔ "حضرت طاوس، ابراہیم نخعی اور قاضی شریح بیان کرتے ہیں کہ سچا گواہ، جھوٹی قسم کے مقابلے میں زیادہ حقدار ہے کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیان یہ بڑھ کر رکھتا ہے) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق (غلطی سے) دلادوں، تو وہ حلال (نہ سمجھے) اس کو نہ لے، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں امام مالک، شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا حکم ظاہراً نافذ ہوتا ہے نہ کہ باطناً، یعنی قاضی اگر غلطی سے کوئی فیصلہ کردے تو جس کے موافق فیصلہ کرے عنداللہ اس کے لیے وہ شے درست ہوگی اور حنفیہ کا رد ہوا جن کے نزدیک قاضی کی قضا ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہوجاتی ہیں۔ حدیث سے بھی یہی نکلا کہ پیغمبر صاحب ﷺ کو بھی دھوکہ ہوجانا ممکن تھا اور آپ کو علم غیب نہ تھا اور جب آپ سے جو سارے جہاں سے افضل تھے۔ غلطی ہوجانا ممکن ہوا تو اور کسی قاضی یا مجتہد یا امام یا عالم کی کیا حقیقت اور کیا ہستی ہے اوربڑا بے وقوف ہے وہ شخص جو کسی مجتہد یا پیر کو خطا سے معصوم سمجھے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) said, "You people present your cases to me and some of you may be more eloquent and persuasive in presenting their argument. So, if I give some one's right to another (wrongly) because of the latter's (tricky) presentation of the case, I am really giving him a piece of fire; so he should not take it."