Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: Drawing lots to solve problems)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے ( قرعہ اندازی کے لیے تاکہ ) فیصلہ کرسکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا ) کہ جب سب لوگوں نے ( نہراردن میں ) اپنے اپنے قلم ڈالے ، تو تمام قلم پانی کے بہاو کے ساتھ بہہ گئے ، لیکن زکریا ؑ کا قلم اس بہاو میں اوپر آگیا ۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم ؑ کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فساہم کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا ۔ فکان من المدحضین ( میں مدحضین کے معنی ہیں ) من المسہومین ( یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا ) حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے ( کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر ) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا ، تو وہ سب ( ایک ساتھ ) آگے بڑھے ۔ اس لیے آپ ﷺنے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے ۔ جمہور علماءکے نزدیک قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا جائز اور مشروع ہے۔ ابن منذر نے حضرت امام ابوحنیفہ سے بھی اس کا جواز نقل کیا ہے۔ پس آیات اور حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ اب اگر کوئی قرعہ اندازی کا انکار کرے تو وہ خود غلطی میں مبتلا ہے۔
2689.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کو اذان دینے اور صف اول میں کھڑے ہونے کا ثواب علم ہوجائے تو اس کے حصول کے لیے انھیں قرعہ اندازی بھی کرنی پڑے تو وہ اس کا بھی سہارا لیں۔ اگر انھیں معلوم ہو جائے کہ جلدی بروقت نماز پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں۔ اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز میں کیا ثواب ہے تو ان نمازوں میں ضرور شریک ہوں اگرچہ انھیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔‘‘
تشریح:
زندگی میں بے شمار معاملات ایسے آتے ہیں کہ ان میں فیصلہ کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بہتر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔شریعت میں کئی ایک مواقع پر قرعہ اندازی کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً: حقوق متعین کرنے میں جبکہ سب مشترکہ طور پر ان میں شریک ہوں، یا ملکیت ثابت کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔ بہرحال اس کے شرعی طور پر جائز ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کا موقف مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2594
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2689
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2689
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2689
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الشھادات میں قرعہ اندازی اس مناسبت سے بیان کی ہے کہ جس طرح گواہوں کے ذریعے سے مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے اسی طرح قرعہ اندازی بھی بعض اوقات فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے سے حقوق دیے جاتے ہیں اور جھگڑوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ جمہور علماء نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے قرعہ ڈالنا جائز قرار دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا آیات و احادیث سے اس کی مشروعیت بیان کی ہے، چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کرنے کے متعلق قرعدہ اندازی کی گئی۔ اس کے علاوہ حضرت یونس علیہ السلام کو قرعہ اندازی کے ذریعے سے سمندر کے حوالے کیا گیا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات ہم سے پہلی امتوں کے ہیں، تاہم ہماری شریعت میں ان کی مخالفت بیان نہیں ہوئی، لہذا قابل قبول ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر، تفسیر طبری میں موصولاً ذکر کی گئی ہے۔ (تفسیر الطبری:3/314) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2674)
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے ( قرعہ اندازی کے لیے تاکہ ) فیصلہ کرسکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا ) کہ جب سب لوگوں نے ( نہراردن میں ) اپنے اپنے قلم ڈالے ، تو تمام قلم پانی کے بہاو کے ساتھ بہہ گئے ، لیکن زکریا ؑ کا قلم اس بہاو میں اوپر آگیا ۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم ؑ کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فساہم کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا ۔ فکان من المدحضین ( میں مدحضین کے معنی ہیں ) من المسہومین ( یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا ) حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے ( کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر ) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا ، تو وہ سب ( ایک ساتھ ) آگے بڑھے ۔ اس لیے آپ ﷺنے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے ۔ جمہور علماءکے نزدیک قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا جائز اور مشروع ہے۔ ابن منذر نے حضرت امام ابوحنیفہ سے بھی اس کا جواز نقل کیا ہے۔ پس آیات اور حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ اب اگر کوئی قرعہ اندازی کا انکار کرے تو وہ خود غلطی میں مبتلا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کو اذان دینے اور صف اول میں کھڑے ہونے کا ثواب علم ہوجائے تو اس کے حصول کے لیے انھیں قرعہ اندازی بھی کرنی پڑے تو وہ اس کا بھی سہارا لیں۔ اگر انھیں معلوم ہو جائے کہ جلدی بروقت نماز پڑھنے میں کیا ثواب ہے تو ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں۔ اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور فجر کی نماز میں کیا ثواب ہے تو ان نمازوں میں ضرور شریک ہوں اگرچہ انھیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
زندگی میں بے شمار معاملات ایسے آتے ہیں کہ ان میں فیصلہ کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی بہتر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔شریعت میں کئی ایک مواقع پر قرعہ اندازی کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً: حقوق متعین کرنے میں جبکہ سب مشترکہ طور پر ان میں شریک ہوں، یا ملکیت ثابت کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے۔ بہرحال اس کے شرعی طور پر جائز ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان کا موقف مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب وہ قرعہ اندازی کے لیے ا پنے قلم ڈالنے لگے کہ کون مریم کی کفالت کرے۔ "حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: جب سب لوگوں نے اپنے اپنے قلم(دریائے اردن میں) پھینکے تو تمام قلم پانی کے بہاؤ میں بہہ نکلے لیکن حضرت زکریا ؑ کا قلم اس بہاؤ میں اوپر تیرنے لگا۔ اس بنا پر حضرت زکریا علیہ السلام نے ان(مریم علیہ السلام ) کی تربیت وپرورش اپنے ذمے لی۔ قرآن مجید میں سَاهَمَکے معنی قرعہ اندازی کے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ: فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ کے معنی ہیں: اس کے نام قرعہ نکل آیا۔حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: نبی کریمﷺ نے کسی قوم پر قسم پیش کی(قسم اٹھانے کا کہا) تو قسم اٹھانے میں تمام لوگ جلدی کرنے لگے۔ تب آپ نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کرنے کاحکم دیا تاکہ جس کے نام قرعہ نکلے وہی قسم اٹھائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صف اول میں کتنا ثواب ہے اور پھر (انہیں اس کے حاصل کرنے کے لیے) قرعہ اندازی کرنی پڑتی، تو وہ قرعہ اندازی بھی کرتے اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ نماز سویرے پڑھنے میں کتنا ثواب ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں اور اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ عشاء اور صبح کی کتنی فضیلتیں ہیں تو اگر گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تو پھر بھی آتے۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے حضرت امام نے قرعہ اندازی کا جواز نکالا اور بتلایا کہ بہت سے معاملات ایسے بھی سامنے آجاتے ہیں کہ ان کے فیصلہ کے لیے بہتر طریقہ قرعہ اندازی ہی ہوتا ہے۔ پس اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ بعض لوگ قرعہ اندازی کو جائز نہیں کہتے، یہ ان کی عقل کا قصور ہے۔ حدیث ہٰذا سے اذان پکارنے اور صف اول میں کھڑے ہونے کی بھی انتہائی فضیلت ثابت ہوئی اور نماز سویرے اول وقت پڑھنے کی بھی جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا عمل ہے کہ فجر، ظہر، عصر، مغرب اول وقت ادا کرنا ان کا معمول ہے۔ خاص طور پر عصر و فجر میں تاخیر کرنا عنداللہ محبوب نہیں ہے۔ عصر اول وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر اور فجر غلس میں اول وقت پڑھنا آنحضرت ﷺ کا یہی طرز عمل تھا۔ جو آج تک حرمین شریفین میں معمول ہے۔ (وباللہ التوفیق)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If the people knew what is the reward of making the call (for the prayer) and (of being in) the first row (in the prayer), and if they found no other way to get this privilege except by casting lots, they would certainly cast lots for it. If they knew the reward of the noon prayer, they would race for it, and if they knew the reward of the morning (i.e. Fajr) and Isha prayers, they would present themselves for the prayer even if they had to crawl to reach there.