باب : دو آدمیوں میں میل ملاپ کرانے کے لیے جھوٹ بولنا گناہ نہیں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: He who makes peace between the people is not a liar)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2692.
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔‘‘
تشریح:
چونکہ اس جھوٹ سے مقصود شر اور فساد کو دفع کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسے جھوٹ شمار نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ حقیقت میں جھوٹ ہی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ’’تین موقعوں پر خلاف واقعہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں: ایک جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا تاکہ دشمن دھوکے میں آ جائے، دوسرا صلح کراتے وقت خلاف واقعہ بات کہنا اور تیسرا خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا۔‘‘ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6633(2605)) ان کے علاوہ صریح جھوٹ ناجائز اور باعث لعنت ہے۔ (فتح الباري:369/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2597
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2692
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2692
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2692
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
چونکہ اس جھوٹ سے مقصود شر اور فساد کو دفع کرنا ہوتا ہے، اس لیے اسے جھوٹ شمار نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ حقیقت میں جھوٹ ہی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے: ’’تین موقعوں پر خلاف واقعہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں: ایک جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا تاکہ دشمن دھوکے میں آ جائے، دوسرا صلح کراتے وقت خلاف واقعہ بات کہنا اور تیسرا خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا۔‘‘ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6633(2605)) ان کے علاوہ صریح جھوٹ ناجائز اور باعث لعنت ہے۔ (فتح الباري:369/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا صالح بن کیسان سے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ ان کی والدہ ام کلثوم بنت عقبہ ؓ نے انہیں خبر دی اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھائے یا اسی سلسلہ کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے۔
حدیث حاشیہ:
مثلاً دو آدمیوں میں رنج ہوا اور یہ ملاپ کرانے کی نیت سے کہے کہ وہ تو آپ کے خیرخواہ ہیں یا آپ کی تعریف کرتے ہیں۔ قسطلانی ؒنے کہا ایسے جھوٹ کی رخصت ہے جس سے بہت فائدے کی امید ہو۔ امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔ ایک تو لڑائی میں، دوسرے مسلمانوں میں آپس میں میل جول کرانے میں، تیسرے اپنی بیوی سے۔ بعضوں نے اور مقاموں کو بھی جہاں کوئی مصلحت ہو، انہیں پر قیاس کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا جب منع ہے جب اس سے نقصان پیدا ہو یا اس میں کوئی مصلحت نہ ہو، بعضوں نے کہا جھوٹ ہر حال میں منع ہے اور ایسے مقاموں میں توریہ کرنا بہتر ہے مثلاً کوئی ظالم سے یوں کہے میں تو آپ کے لیے دعا کیا کرتا ہوں اور مطلب یہ رکھے اللهم اغفر للمسلمین کہا کرتا ہوں، اور ضرورت کے وقت تو جھوٹ بولنا بالاتفاق جائز ہے۔ ضرورت سے مذکورہ صلح صفائی کی ضرورت مراد ہے، یا کسی ظالم کے ظلم سے بچنے یا کسی کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا، حدیث إنما الأعمالُ بالنیاتِ کا یہ بھی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Kulthum bint Uqba (RA): That she heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "He who makes peace between the people by inventing good information or saying good things, is not a liar."