Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: If some people are (re)conciled on illegal basis, their reconciliation is rejected)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2695.
حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے !اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔‘‘ پھر ایک آدمی سے فرمایا: ’’اے انیس! اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اور (اگر وہ زنا کا اعتراف کرلے تو) اسے سنگسار کردو۔‘‘ چنانچہ وہ اس عورت کے پاس گئے اور اسے سنگسار کردیا۔
تشریح:
(1) بدکاری کرنے والے لڑکے کے باپ نے عورت کے خاوند سے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کر لی۔ چونکہ یہ صلح ناجائز اور خلاف شریعت تھی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا گیا اور بکریاں اور لونڈی اسے واپس کی گئیں۔ مزدور پر شرعی حد لگنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ شریعت کی نظر میں یہ صلح ظلم پر مبنی تھی، اس لیے عمل میں نہیں لائی گئی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے جس آدمی کو عورت پر حد جاری کرنے کے لیے روانہ کیا وہ اسی عورت کے قبیلے سے تھا۔ اگر کسی اور کو روانہ کیا جاتا تو شاید اہل قبیلہ اس فیصلے کو نہ مانتے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل و احکام میں اہل علم سے رابطہ کرنا ضروری ہے اور تحقیق بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2600
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2695
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2695
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2695
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیجئے !اس کا مخالف کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اس نے سچ کہا ہے، ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کردیں۔ دیہاتی نے کہا: میرا بیٹا اسکے ہاں نوکرى تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: تیرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا لیکن میں نے ا پنے بیٹے کے اس جرم کے عوض سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انھوں نے کہا: تیرے بیٹے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جاتی ہیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کے لیےجلاوطن لازم ہے۔‘‘ پھر ایک آدمی سے فرمایا: ’’اے انیس! اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اور (اگر وہ زنا کا اعتراف کرلے تو) اسے سنگسار کردو۔‘‘ چنانچہ وہ اس عورت کے پاس گئے اور اسے سنگسار کردیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بدکاری کرنے والے لڑکے کے باپ نے عورت کے خاوند سے سو بکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کر لی۔ چونکہ یہ صلح ناجائز اور خلاف شریعت تھی اس لیے اسے کالعدم قرار دیا گیا اور بکریاں اور لونڈی اسے واپس کی گئیں۔ مزدور پر شرعی حد لگنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ شریعت کی نظر میں یہ صلح ظلم پر مبنی تھی، اس لیے عمل میں نہیں لائی گئی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے جس آدمی کو عورت پر حد جاری کرنے کے لیے روانہ کیا وہ اسی عورت کے قبیلے سے تھا۔ اگر کسی اور کو روانہ کیا جاتا تو شاید اہل قبیلہ اس فیصلے کو نہ مانتے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسائل و احکام میں اہل علم سے رابطہ کرنا ضروری ہے اور تحقیق بھی کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی ؓ نے بیان کیا کہ ایک د یہاتی آیا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کردیجئے۔ دوسرے فریق نے بھی یہی کہا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ آپ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیں۔ دیہاتی نے کہا کہ میرا لڑکا اس کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ قوم نے کہا تمہارے لڑکے کو رجم کیا جائے گا، لیکن میں نے اپنے لڑکے کے اس جرم کے بدلے میں سوبکریاں اور ایک باندی دے دی، پھر میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے ملک بدر کردیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تو تمہیں واپس لوٹا دی جاتی ہیں، البتہ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کیا جائے گا اور انیس تم (یہ قبیلہ اسلم کے صحابی تھے) اس عورت کے گھر جاو اور اسے رجم کرادو (اگر وہ زنا کا اقرار کرلے) چنانچہ انیس گئے، اور (چونکہ اس نے بھی زنا کا اقرار کرلیا تھا اس لیے) اسے رجم کردیا۔
حدیث حاشیہ:
گویا بیوی کے خاوند سے سوبکریاں اور ایک لونڈی دے کر صلح کرلی۔ باب کا مطلب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تیری بکریاں اور لونڈی تجھ کو واپس ملیں گی، کیوں کہ یہ ناجائز اور خلاف شرع صلح تھی۔ ابن دقیق العید ؒ نے کہا، اس حدیث سے یہ نکلا کہ معاوضہ ناجائز کے بدل جو چیز لی جائے اس کا پھیردینا واجب ہے، لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا۔ روایت میں اہل علم سے مراد وہ صحابہ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں فتویٰ دیاکرتے تھے۔ جیسے خلفائے اربعہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبدالرحمن بن عوف ( رضی اللہ عنهم ) یہ بھی معلوم ہوا کہ جو مسئلہ معلوم نہ ہو اہل علم سے اس کی تحقیق کرلینا ضروری ہے اور یہ تحقیق کتاب و سنت کی روشنی میں ہونی چاہئے نہ کہ محض تقلید کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھائی جائیں۔ آیت ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل:43) کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) and Zaid bin Khalid Al-Juhani (RA): A bedouin came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Judge between us according to Allah's Laws." His opponent got up and said, "He is right. Judge between us according to Allah's Laws." The bedouin said, "My son was a laborer working for this man, and he committed illegal sexual intercourse with his wife. The people told me that my son should be stoned to death; so, in lieu of that, I paid a ransom of one hundred sheep and a slave girl to save my son. Then I asked the learned scholars who said, "Your son has to be lashed one-hundred lashes and has to be exiled for one year." The Prophet (ﷺ) said, "No doubt I will judge between you according to Allah's Laws. The slave-girl and the sheep are to go back to you, and your son will get a hundred lashes and one year exile." He then addressed somebody, "O Unais! go to the wife of this (man) and stone her to death" So, Unais went and stoned her to death.