Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: If some people are (re)conciled on illegal basis, their reconciliation is rejected)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2697.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: ’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی رسم پیدا کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہوگی۔‘‘ عبداللہ بن جعفر مخرمی اور عبدالواحد بن ابی عون نے اس روایت کو سعد بن ابراہیم سے بیان کیاہے۔
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس شخص نے دین اسلام میں کسی ایسی رسم کو رواج دیا جس کی کوئی اصل نہیں ہے تو اس رسم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ ایسی رسم کو دیوار سے مار دیا جائے۔ (صحیح مسلم، الأقضیة، حدیث:4492(1718)، و سنن الدارقطني:160/4) (2) یہ حدیث شریعت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ اس سے تمام بدعات کا رد ہوتا ہے جو لوگوں نے دین میں پیدا کر رکھی ہیں جیسا کہ تیجا، ساتواں، قل خوانی، چہلم، سالگرہ، تعزیہ، عرس اور میلے وغیرہ۔ (3) واضح رہے کہ عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم ؒ نے اور عبدالواحد کی روایت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صلح خلاف شریعت ہو وہ لغو اور باطل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2601
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2697
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2697
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2697
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: ’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی رسم پیدا کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہوگی۔‘‘ عبداللہ بن جعفر مخرمی اور عبدالواحد بن ابی عون نے اس روایت کو سعد بن ابراہیم سے بیان کیاہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس شخص نے دین اسلام میں کسی ایسی رسم کو رواج دیا جس کی کوئی اصل نہیں ہے تو اس رسم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ ایسی رسم کو دیوار سے مار دیا جائے۔ (صحیح مسلم، الأقضیة، حدیث:4492(1718)، و سنن الدارقطني:160/4) (2) یہ حدیث شریعت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ اس سے تمام بدعات کا رد ہوتا ہے جو لوگوں نے دین میں پیدا کر رکھی ہیں جیسا کہ تیجا، ساتواں، قل خوانی، چہلم، سالگرہ، تعزیہ، عرس اور میلے وغیرہ۔ (3) واضح رہے کہ عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم ؒ نے اور عبدالواحد کی روایت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صلح خلاف شریعت ہو وہ لغو اور باطل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس نے ہمارے دین میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔ اس کی روایت عبداللہ بن جعفر مخرمی اور عبدالواحد بن ابی عون نے سعد بن ابراہیم سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم ؒنے اور عبدالواحد کی روایت کو دار قطنی ؒنے وصل کیا۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو صلح برخلاف قواعد شرع ہو وہ لغو اور باطل ہے اور جب معاہدہ صلح باطل ٹھہرا تو جو معاوضہ کسی فریق نے لیا وہ واجب الرد ہوگا۔ یہ حدیث شریعت کی اصل الاصول ہے۔ اس سے ان تمام بدعات کا جو لوگوں نے دین میں نکال رکھی ہیں پورا رد ہوجاتا ہے۔ جیسے تیجہ، فاتحہ، چہلم، شب برات کاحلوہ، محرم کا کھچڑا، تعزیہ شدہ مولود، عرس، قبروں پر غلاف و پھول ڈالنا، ان پر میلے کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ جملہ امور اس لیے بدعت سیسہ ہیں کہ زمانہ رسالت اور زمانہ صحابہ و تابعین میں ان کا کوئی وجود نہیں ملتا، جیسا کہ کتب تاریخ و سیر میں موجود ہے۔ مگر کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی جگہ ان بدعات سیہ کا ثبوت نہیں ملے گا۔ اگر سارے اہل بدعت بھی مل کر زور لگائیں تو ناکام رہیں گے۔ بہر حال بدعت سے پرہیز کرنا اور سنت نبوی ﷺ کو معمول بنانا بے حد ضروری ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے مسلک سنت پہ اے سالک چلا جا بے دھڑک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If somebody innovates something which is not in harmony with the principles of our religion, that thing is rejected."