ترجمة الباب:
فيه عن أبي سفيان، وقال عوف بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم ثم تكون هدنة بينكم وبين بني الأصفر . وفيه سهل بن حنيف وأسماء والمسور عن النبي صلى الله عليه وسلم.
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: To make peace with Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ابوسفیانؓ کی حدیث ہے ۔ عوف بن مالک ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ایک دن آئے گا کہ پھر تمہاری رومیوں سے صلح ہو جائے گی ۔ اس باب میں سہل بن حنیف اسماءاور مسور رضی اللہ عنہم کی بھی نبی کریم ﷺسے روایات ہیں ۔
2701.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے اس لیے آپ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنی قربانی کو ذبح کیا، اپنا سر مبارک بھی حدیبیہ میں منڈایا اور مشرکین قریش سے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان پر ہتھیار اٹھا کر نہیں چلیں گے، البتہ تلواریں نیام میں لے کرآسکیں گے، نیز مکہ معظمہ میں جب تک کفار پسند کریں آپ قیام فرمائیں گے، چنانچہ آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور حسب شرائط صلح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن مکہ میں ٹھہر چکے تو انھوں نے مکہ سے چلے جانے کو کہا، لہذا آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوگئے۔
تشریح:
(1) معلوم ہوا کہ دیت دے کر صلح کرنا جائز ہے۔ ربیع ؓ حضرت انس بن مالک ؓ کی پھوپھی تھیں اور انس بن نضر ؓ ان کے چچا ہیں۔ (2) حضرت انس بن نضر نے شرعی حکم کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خیال کیا کہ شاید دیت او قصاص میں اختیار ہے، ان میں جو بھی ادا کر دیا جائے جائز ہے۔ انہیں قصاص کی تعیین کا علم نہیں تھا جبکہ قرآن مجید میں ہے: (وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ) ’’دانت کے بدلے دانت (توڑا جائے۔‘‘)(المائدة:45:5) اس کا ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ نے لا تكسر کے الفاظ سے حکم الٰہی کو رَد نہیں کیا تھا بلکہ اللہ کے فضل پر پختہ یقین کرتے ہوئے اس کے عدم وقوع کی خبر دی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتماد و یقین کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ بعض مخلص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ ان کی کہی ہوئی بات کو پورا کرتا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت سے تطبیق کی صورت ذکر کی ہے کہ ان لوگوں نے قصاص معاف کر کے دیت قبول کر لی، مطلق معافی مراد نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت کو خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4611)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2605
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2701
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2701
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2701
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے شاہ روم ہرقل کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں قریش سے صلح کر لی ہے۔ (صحیح البخاری،الایمان،حدیث:7) حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کی ہے جس میں رومیوں سے صلح کا بیان ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ،حدیث:3176) حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت بھی صحیح بخاری میں ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ،حدیث:3181) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، جس میں ان کی والدہ کے مدینہ طیبہ آنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2620) حضرت مسور رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی آئندہ آ رہی ہے۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2712) ان روایات میں کفار و مشرکین سے صلح کا ذکر ہے، بوقت ضرورت ان سے صلح کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
اس باب میں ابوسفیانؓ کی حدیث ہے ۔ عوف بن مالک ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ایک دن آئے گا کہ پھر تمہاری رومیوں سے صلح ہو جائے گی ۔ اس باب میں سہل بن حنیف اسماءاور مسور رضی اللہ عنہم کی بھی نبی کریم ﷺسے روایات ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے اس لیے آپ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنی قربانی کو ذبح کیا، اپنا سر مبارک بھی حدیبیہ میں منڈایا اور مشرکین قریش سے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان پر ہتھیار اٹھا کر نہیں چلیں گے، البتہ تلواریں نیام میں لے کرآسکیں گے، نیز مکہ معظمہ میں جب تک کفار پسند کریں آپ قیام فرمائیں گے، چنانچہ آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور حسب شرائط صلح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن مکہ میں ٹھہر چکے تو انھوں نے مکہ سے چلے جانے کو کہا، لہذا آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا کہ دیت دے کر صلح کرنا جائز ہے۔ ربیع ؓ حضرت انس بن مالک ؓ کی پھوپھی تھیں اور انس بن نضر ؓ ان کے چچا ہیں۔ (2) حضرت انس بن نضر نے شرعی حکم کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خیال کیا کہ شاید دیت او قصاص میں اختیار ہے، ان میں جو بھی ادا کر دیا جائے جائز ہے۔ انہیں قصاص کی تعیین کا علم نہیں تھا جبکہ قرآن مجید میں ہے: (وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ) ’’دانت کے بدلے دانت (توڑا جائے۔‘‘)(المائدة:45:5) اس کا ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ نے لا تكسر کے الفاظ سے حکم الٰہی کو رَد نہیں کیا تھا بلکہ اللہ کے فضل پر پختہ یقین کرتے ہوئے اس کے عدم وقوع کی خبر دی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتماد و یقین کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ بعض مخلص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ ان کی کہی ہوئی بات کو پورا کرتا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت سے تطبیق کی صورت ذکر کی ہے کہ ان لوگوں نے قصاص معاف کر کے دیت قبول کر لی، مطلق معافی مراد نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت کو خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4611)
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت ابو سفیانؓ سے مروی ایک حدیث ہے۔ حضرت عوف بن مالک ؓ نبی کریم ﷺسے بیان کرتے ہیں: "پھر تمہاری رومیوں سے صلح ہوجائےگی۔ "اسکے متعلق حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب ابو جندل کو بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، نیز حضرت اسماء اور حضرت مسورؓ کی بھی نبی کریم ﷺسے روایات ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن نعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے، تو کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا۔ اس لیے آپ نے قربانی کا جانور حدیب یہ میں ذبح کردیا اور سر بھی وہیں منڈوالیا اور کفار مکہ سے آپ نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کرسکیں گے۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے۔ (اور وہ بھی نیام میں ہوں گی) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہرسکیں گے۔ (یعنی تین دن) چنانچہ آنحضرت ﷺ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے، پھر جب تین دن گزرچکے تو قریش نے مکے سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپ ﷺ وہاں سے چلے آئے۔
حدیث حاشیہ:
اگرچہ مشرکین کی یہ شرطیں بالکل نامناسب تھیں، مگر رحمۃ للعالمین ﷺ نے بہت سے مصالح کے پیش نظر ان کو تسلیم فرمالیا۔ پس مصلحتاً دب کر صلح کرلینا بھی بعض مواقع پر ضروری ہوجاتا ہے۔ اسلام سراسر صلح کا حامی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص فساد کو مٹانے کے لیے اپنا حق چھوڑ کر بھی صلح کرلے، اللہ اس سے بہت ہی بہتر اجر عطا کرتا ہے۔ حضرت حسن ؓ اور حضرت امیر معاوریہ ؓ کی صلح بھی اسی قسم کی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) set out for the 'Umra but the pagans of Quraish prevented him from reaching the Ka’bah. So, he slaughtered his sacrifice and got his head shaved at Al-Hudaibiya, and agreed with them that he would perform 'Umra the following year and would not carry weapons except swords and would not stay in Makkah except for the period they al lowed. So, the Prophet (ﷺ) performed the 'Umra in the following year and entered Makkah according to the treaty, and when he stayed for three days, the pagans ordered him to depart, and he departed.