باب : حضرت حسن بن علیؓ کے متعلق نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میرا یہ بیٹا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: "This son of mine is Sayyid.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مسلمانوں کا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے اور اللہ پاک کا سورۃ حجرات میں یہ ارشاد کہ ” پس دونوں میں صلح کرادو
2704.
حضرت ابو موسیٰ (اسرائیل بن موسیٰ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حسن بصری سے سنا، انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب حضرت حسن بن علی ؓ امیر معاویہ ؓ کے مقابلے میں پہاڑوں جیسا لشکر لے کر آئے تو حضرت عمرو بن عاص ؓ نے کہا: میں ایسے لشکروں کو دیکھ رہا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک وہ اپنے مخالفین کو قتل نہ کردیں۔ حضرت معاویہ ؓ جو ان (عمرو) سے بہتر تھے نے حضرت عمرو بن عاص ؓ سے کہا: اے عمرو! اگر انھوں نے اُن کو اور اُنھوں نے ان کوقتل کردیا تو لوگوں کے امورکی نگرانی کون کرے گا؟ ان کی عورتوں کی کفالت کون کرے گا؟ ان کے بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پھر سیدنا معاویہ ؓ نے قریش کے قبیلہ عبدشمس سے دو آدمی: عبدالرحمان بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر کریز، بھیجے اور ان سے کہا کہ اس شخص (حضرت حسن ؓ ) کے پاس جاؤ اور صلح کی پیش کش کرو، اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرو، چنانچہ وہ دونوں حضرت حسن ؓ کے پاس گئے، ان سے گفتگو کی اورصلح کی پیشکش سامنے رکھی۔ حضرت حسن بن علی ؓ نے ان سے فرمای: عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہمیں خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت پڑ گئی ہے اور یہ لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں انھیں بھی خون خرابہ کرنے کی لت پڑ چکی ہے۔ (یہ روپیہ پیسہ کے بغیرواپس نہیں ہوں گے۔ ) وہ دونوں کہنے لگے: حضرت معاویہ ؓ آپ کو اتنا اتنا پیسہ دینے پر راضی ہیں اورآپسے صلح چاہتے ہیں، انھوں نے فیصلہ آپ کی صوابدید پر چھوڑا ہے اور آپ سے اس کاحل دریافت کیا ہے؟ حضرت حسن ؓ نے فرمایا: اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ انھوں نے عرض کیا: ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اسکے بعد حضرت حسن ؓ نے جس جس چیز کا مطالبہ کیا وہ دونوں یہی کہتے رہے کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں، چنانچہ حضرت حسن ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ سے صلح کرلی۔ حضرت حسن (بصری) فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابو بکرہ ؓ سے سنا، وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا جبکہ حسن بن علی ؓ آپ کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ آپ کبھی تو لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی ان کی طرف متوجہ ہوجاتے اور فرماتے: ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے سے مسلمان کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں: میرے استاد علی بن مدینی نے فرمایا: اس حدیث کی بدولت ہمارے نزدیک حضرت ابوبکرہ ؓ سے حضرت حسن بصری کا سماع صحیح ثابت ہوا ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی حضرت حسن بن علی ؓ کے متعلق مذکورہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی دونوں جماعتوں کے درمیان صلح ہو گئی اور وہ امن و امان سے زندگی بسر کرنے لگے۔ (2) اس مقام پر کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسن ؓ کی بیعت کی گئی۔ آپ نے اس معاملے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ امت میں اختلاف سے بہتر ہے کہ وہ خلافت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کر کے امت میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں، چنانچہ انہوں نے چھ ماہ تک خلافت کے معاملات سر انجام دینے کے بعد ملک اور دنیا کی رونق کو ٹھکرا دیا، حالانکہ چالیس ہزار افراد ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت سے دستبرداری کی وجہ، ذلت اور قلت نہیں بلکہ محض امت کی خیرخواہی اور دین کی سربلندی مقصود تھی۔ (3) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی رُک گئی۔ حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت، حضرت امیر معاویہ ؓ کی دور اندیشی، پھر حضرت حسن ؓ کی صلح پر آمادگی ان سب معاملات میں امت کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جس سال صلح عمل میں آئی، امت مسلمہ میں وہ سال عام الجماعۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ (4) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے ایک عنوان کتاب الفتن میں بھی ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7109)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2608
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2704
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2704
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2704
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
دو بڑے گروہوں سے مراد حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے گروہ ہیں۔ ان کے درمیان صلح کا ذکر آئندہ حدیث میں آئے گا۔
مسلمانوں کا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے اور اللہ پاک کا سورۃ حجرات میں یہ ارشاد کہ ” پس دونوں میں صلح کرادو
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ (اسرائیل بن موسیٰ) سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حسن بصری سے سنا، انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب حضرت حسن بن علی ؓ امیر معاویہ ؓ کے مقابلے میں پہاڑوں جیسا لشکر لے کر آئے تو حضرت عمرو بن عاص ؓ نے کہا: میں ایسے لشکروں کو دیکھ رہا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک وہ اپنے مخالفین کو قتل نہ کردیں۔ حضرت معاویہ ؓ جو ان (عمرو) سے بہتر تھے نے حضرت عمرو بن عاص ؓ سے کہا: اے عمرو! اگر انھوں نے اُن کو اور اُنھوں نے ان کوقتل کردیا تو لوگوں کے امورکی نگرانی کون کرے گا؟ ان کی عورتوں کی کفالت کون کرے گا؟ ان کے بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پھر سیدنا معاویہ ؓ نے قریش کے قبیلہ عبدشمس سے دو آدمی: عبدالرحمان بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر کریز، بھیجے اور ان سے کہا کہ اس شخص (حضرت حسن ؓ ) کے پاس جاؤ اور صلح کی پیش کش کرو، اس سے صلح کے متعلق گفتگو کرو، چنانچہ وہ دونوں حضرت حسن ؓ کے پاس گئے، ان سے گفتگو کی اورصلح کی پیشکش سامنے رکھی۔ حضرت حسن بن علی ؓ نے ان سے فرمای: عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہمیں خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت پڑ گئی ہے اور یہ لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں انھیں بھی خون خرابہ کرنے کی لت پڑ چکی ہے۔ (یہ روپیہ پیسہ کے بغیرواپس نہیں ہوں گے۔ ) وہ دونوں کہنے لگے: حضرت معاویہ ؓ آپ کو اتنا اتنا پیسہ دینے پر راضی ہیں اورآپسے صلح چاہتے ہیں، انھوں نے فیصلہ آپ کی صوابدید پر چھوڑا ہے اور آپ سے اس کاحل دریافت کیا ہے؟ حضرت حسن ؓ نے فرمایا: اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ انھوں نے عرض کیا: ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اسکے بعد حضرت حسن ؓ نے جس جس چیز کا مطالبہ کیا وہ دونوں یہی کہتے رہے کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں، چنانچہ حضرت حسن ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ سے صلح کرلی۔ حضرت حسن (بصری) فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابو بکرہ ؓ سے سنا، وہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا جبکہ حسن بن علی ؓ آپ کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ آپ کبھی تو لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی ان کی طرف متوجہ ہوجاتے اور فرماتے: ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعے سے مسلمان کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں: میرے استاد علی بن مدینی نے فرمایا: اس حدیث کی بدولت ہمارے نزدیک حضرت ابوبکرہ ؓ سے حضرت حسن بصری کا سماع صحیح ثابت ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کی حضرت حسن بن علی ؓ کے متعلق مذکورہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی دونوں جماعتوں کے درمیان صلح ہو گئی اور وہ امن و امان سے زندگی بسر کرنے لگے۔ (2) اس مقام پر کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسن ؓ کی بیعت کی گئی۔ آپ نے اس معاملے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ امت میں اختلاف سے بہتر ہے کہ وہ خلافت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کر کے امت میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں، چنانچہ انہوں نے چھ ماہ تک خلافت کے معاملات سر انجام دینے کے بعد ملک اور دنیا کی رونق کو ٹھکرا دیا، حالانکہ چالیس ہزار افراد ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت سے دستبرداری کی وجہ، ذلت اور قلت نہیں بلکہ محض امت کی خیرخواہی اور دین کی سربلندی مقصود تھی۔ (3) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی رُک گئی۔ حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت، حضرت امیر معاویہ ؓ کی دور اندیشی، پھر حضرت حسن ؓ کی صلح پر آمادگی ان سب معاملات میں امت کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جس سال صلح عمل میں آئی، امت مسلمہ میں وہ سال عام الجماعۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ (4) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے ایک عنوان کتاب الفتن میں بھی ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7109)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی ؓ (معاو یہ ؓ کے مقابلے میں) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن عاص ؓ نے کہا (جو امیر معاو یہ ؓ کے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائےگا۔ معاویہ ؓ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کردیا، یا اس نے اس کو کردیا، تو (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لیے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا۔ آخر معاو یہ ؓ نے حسن ؓ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی ؓ کے یہاں جاو اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی ؓ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہوگئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے حضرت امیر معاویہ ؓ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حضرت حسن ؓ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حضرت حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں ۔ آخر آپ نے صلح کرلی ، پھرفرمایا کہ میں نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے سنا تھا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی ؓ آنحضرت ﷺ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن ؓ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری ؒنے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ ؓ سے سننا ثابت ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں حضرت حسن ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی باہمی صلح کا ذکر ہے اور اس سے صلح کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقصد کے تحت مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں لائے۔ اس صلح کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی، جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی باہمی خون ریزی رک گئی۔ حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت اور حضرت امیر معاویہ ؓ کی دو راندیشی پھر مصالحت کے لیے حضرت حسن کی آمادگی، یہ جملہ حالات امت کے لیے بہت سے اسباق پیش کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ ان اسباق کو بہت کم مد نظر رکھاگیا، جس کی سزا امت ابھی تک بھگت رہی ہے۔ راوی کا قول وکان خیرالرجلین میں اشارہ حضرت امیر معاویہ ؓ اور عمروبن عاص ؓ کی طرف ہے کہ حضرت معاویہ عمرو بن عاص ؓ سے بہتر تھے جو جنگ کے خواہاں نہیں تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Hasan Al-Basri (RA): By Allah, Al-Hasan bin Ali led large battalions like mountains against Muawiyah. Amr bin Al-As said (to Muawiyah), "I surely see battalions which will not turn back before killing their opponents." Muawiyah who was really the best of the two men said to him, "O 'Amr! If these killed those and those killed these, who would be left with me for the jobs of the public, who would be left with me for their women, who would be left with me for their children?" Then Muawiyah sent two Quraishi men from the tribe of 'Abd-i-Shams called 'Abdur Rahman bin Sumura and Abdullah bin 'Amir bin Kuraiz to Al-Hasan saying to them, "Go to this man (i.e. Al-Hasan) and negotiate peace with him and talk and appeal to him." So, they went to Al-Hasan and talked and appealed to him to accept peace. Al-Hasan said, "We, the offspring of 'Abdul Muttalib, have got wealth and people have indulged in killing and corruption (and money only will appease them)." They said to Al-Hasan, "Muawiyah offers you so and so, and appeals to you and entreats you to accept peace." Al-Hasan said to them, "But who will be responsible for what you have said?" They said, "We will be responsible for it." So, what-ever Al-Hasan asked they said, "We will be responsible for it for you." So, Al-Hasan concluded a peace treaty with Muawiyah. Al-Hasan (Al-Basri) said: I heard Abu Bakr (RA) saying, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) on the pulpit and Al-Hasan bin 'Ali was by his side. The Prophet (ﷺ) was looking once at the people and once at Al-Hasan bin 'Ali saying, 'This son of mine is a Saiyid (i.e. a noble) and may Allah make peace between two big groups of Muslims through him."