باب : کیا امام صلح کے لیے فریقین کو اشارہ کرسکتا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: Should the Imam suggest reconciliation?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2705.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں جو بلند ہورہی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے قرض میں کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ دوسرا کہتاتھا کہ اللہ کی قسم!میں ایسا نہیں کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’اس بات پر اللہ کی قسم اٹھانے والے صاحب کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نیکی کاکام نہیں کروں گا؟‘‘ قسم اٹھانے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں موجود ہوں۔ اب میرا بھائی جو چاہتا ہے مجھے وہی پسند ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم اٹھا رہا تھا؟‘‘ گویا آپ ﷺ نے اس فعل کو برا خیال کیا اور اسے صلح کا مشورہ دیا۔ وہ آپ کے اشارے کو سمجھ گیا اور خود بہ خود کہنے لگا: میرا مقروض جو چاہے مجھے منظور ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حاکم ایسے فیصلے کا حکم دے سکتا ہے جس میں فریقین کی بھلائی ہو اگرچہ کسی کے حق ادائیگی میں دیر ہو جائے بشرطیکہ اس کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ اگر فریق ثانی راضی نہ ہو تو حاکم مقروض کو پورا حق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ صاحب واقعہ نے رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام کرتے ہوئے آپ کا اشارہ پا کر مقروض کے قرض میں کمی کا اعلان کر دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2609
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2705
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2705
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2705
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں جو بلند ہورہی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے قرض میں کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ دوسرا کہتاتھا کہ اللہ کی قسم!میں ایسا نہیں کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’اس بات پر اللہ کی قسم اٹھانے والے صاحب کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نیکی کاکام نہیں کروں گا؟‘‘ قسم اٹھانے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں موجود ہوں۔ اب میرا بھائی جو چاہتا ہے مجھے وہی پسند ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم اٹھا رہا تھا؟‘‘ گویا آپ ﷺ نے اس فعل کو برا خیال کیا اور اسے صلح کا مشورہ دیا۔ وہ آپ کے اشارے کو سمجھ گیا اور خود بہ خود کہنے لگا: میرا مقروض جو چاہے مجھے منظور ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حاکم ایسے فیصلے کا حکم دے سکتا ہے جس میں فریقین کی بھلائی ہو اگرچہ کسی کے حق ادائیگی میں دیر ہو جائے بشرطیکہ اس کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ اگر فریق ثانی راضی نہ ہو تو حاکم مقروض کو پورا حق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ صاحب واقعہ نے رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام کرتے ہوئے آپ کا اشارہ پا کر مقروض کے قرض میں کمی کا اعلان کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن ہلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے ابوالرجال محمد بن عبدالرحمن نے، ان سے ان کی والدہ عمرہ بنت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہوگئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ ان صحابی نے عرض کیا، میں ہی ہوں یا رسول اللہ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ہر دو میں صلح کا ارشاد فرمایا، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حافظ ؒنے کہا، ان لوگوں کے نام معلوم نہیں ہوئے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو پوچھا تھا وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم کھارہا تھا۔ گویا آپ نے اس کے فعل کو برا سمجھا اور صلح کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا اور آپ کے پوچھتے ہی خود بخود کہنے لگا میرا مقروض جو چاہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے ادب و احترام میں فوراً ہی آپ کا اشارہ پاکر مقروض کے قرض میں تخفیف کا اعلان کردیا۔ بڑوں کے احترام میں انسان اپنا کچھ نقصان بھی برداشت کرلے تو بہتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) heard the loud voices of some opponents quarreling at the door. One of them was appealing to the other to deduct his debt and asking him to be lenient but the other was saying, "By Allah I will not do so." Allah's Apostle (ﷺ) went out to them and said, "Who is the one who was swearing by Allah that he would not do a favor?" That man said, "I am that person, O Allah's Apostle (ﷺ) ! I will give my opponent whatever he wishes."