باب : میت کے قرض خواہوں اور وارثوں میں صلح کا بیان اور قرض کا اندازہ سے ادا کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: Reconciliation between the creditors and between the inheritors)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ اگر دو شریک آپس میں یہ ٹھہرا لیں کہ ایک ( اپنے حصہ کو بدل ) قرض وصول کرے اور دوسرا نقد مال لے لے تو کوئی حرج نہیں ۔ اب اگر ایک شریک کا حصہ تلف ہوجائے ( مثلاً قرضہ ڈوب جائے ) تو وہ اپنے شریک سے کچھ نہیں لے سکتا ۔
2709.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔‘‘ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: ’’اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔‘‘ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے ادا نہ کردیا ہو، اس کے باوجود تیرہ وسق کھجوریں بچ گئیں جن میں سات وسق عجوہ اور چھ وسق لون تھیں یا چھ وسق عجوہ اور سات وسق لون تھیں۔ پھر میں بوقت مغرب رسول اللہ ﷺ سے ملا اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ہنس پڑے اور فرمایا: ’’ابو بکروعمر رضوان اللہ عنھم أجمعین کے پاس جاؤ اورانھیں بھی اس واقعے سے مطلع کرو۔‘‘ (چنانچہ میں نے انھیں بتایا) تو انھوں نے فرمایا: ہم نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی تھی کہ عنقریب ایسا ہوگا۔ ہشام حضرت جابر ؓ سے نماز عصر کا ذکر کرتے ہیں اور اس روایت میں سیدنا ابو بکر ؓ کا اور (رسول اللہ ﷺ کے )ہنسنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے والد کے ذمے تیس وسق کھجوریں قرض تھا۔ ابن اسحاق حضرت جابر ؓ سے نماز ظہر کا ذکر کرتے ہیں۔
تشریح:
(1) حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی کے قرض کے عوض انہیں باغ کا پورا پھل پیش کیا کہ وہ اس کی کھجوریں لے لیں اور میرے باپ کو قرض سے رہا کر دیں، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا، جس کا مطلب یہ ہے قرض کے متعلق قرض خواہوں سے کسی بھی طریقے سے صلح ہو سکتی ہے۔ (2) اس روایت میں اوقات نماز کے متعلق اختلاف بیان ہوا ہے۔ یہ اختلاف نقصان دہ نہیں کیونکہ اصل مقصود تو رسول اللہ ﷺ کی برکت بتانا تھا جو کھجوروں میں پیدا ہوئی۔ اسے راویوں نے بیان کیا ہے۔ تعیین نماز میں اختلاف سے اصل روایت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دراصل حضرت جابر ؓ اپنے قرض خواہوں کا قرض ادا کر کے بار بار رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے کے لیے آتے ہوں گے۔ بعض قرض خواہوں کا قرض دینے کی اطلاع ظہر کے وقت جبکہ دوسرے گروہ کے قرض کی ادائیگی سے عصر کے وقت مطلع کیا اور تیسرے گروہ کا قرض ادا کر کے مغرب کے وقت اطلاع کی۔ اس طرح تمام روایات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ (3) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کو اطلاع دینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ آپ کے معجزے اور حضرت جابر ؓ کے قرض کی ادائیگی سے خوش ہو جائیں کیونکہ یہ حضرات بھی حضرت جابر ؓ کے اس قرض سے بہت فکر مند تھے۔ رضي اللہ عنهم أجمعین (4) واضح رہے کہ مدینہ طیبہ میں کھجور کی بہت سی قسمیں ہوتی تھیں۔ اس میں عجوہ، کھجور کی بہترین قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے ایسی برکت پڑی کہ تمام قرض اور اخراجات ادا کرنے کے بعد بھی کافی کھجوریں بچ گئی۔ حضرت جابر ؓ بڑے خوش نصیب تھے کہ انہیں یہ فیضان نبوی حاصل ہوا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2613
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2709
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2709
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2709
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس تعلیق کو مصنف ابن ابی شیبہ (7/284) میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے، نیز یہ اثر کتاب الحولات کے آغاز میں گزر چکا ہے، وہاں ہم نے اس کی تشریح کی تھی۔ (صحیح البخاری،الحوالات،قبل حدیث:2287)
اور عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ اگر دو شریک آپس میں یہ ٹھہرا لیں کہ ایک ( اپنے حصہ کو بدل ) قرض وصول کرے اور دوسرا نقد مال لے لے تو کوئی حرج نہیں ۔ اب اگر ایک شریک کا حصہ تلف ہوجائے ( مثلاً قرضہ ڈوب جائے ) تو وہ اپنے شریک سے کچھ نہیں لے سکتا ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔‘‘ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: ’’اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔‘‘ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے ادا نہ کردیا ہو، اس کے باوجود تیرہ وسق کھجوریں بچ گئیں جن میں سات وسق عجوہ اور چھ وسق لون تھیں یا چھ وسق عجوہ اور سات وسق لون تھیں۔ پھر میں بوقت مغرب رسول اللہ ﷺ سے ملا اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ہنس پڑے اور فرمایا: ’’ابو بکروعمر رضوان اللہ عنھم أجمعین کے پاس جاؤ اورانھیں بھی اس واقعے سے مطلع کرو۔‘‘ (چنانچہ میں نے انھیں بتایا) تو انھوں نے فرمایا: ہم نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا کی تھی کہ عنقریب ایسا ہوگا۔ ہشام حضرت جابر ؓ سے نماز عصر کا ذکر کرتے ہیں اور اس روایت میں سیدنا ابو بکر ؓ کا اور (رسول اللہ ﷺ کے )ہنسنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے والد کے ذمے تیس وسق کھجوریں قرض تھا۔ ابن اسحاق حضرت جابر ؓ سے نماز ظہر کا ذکر کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی کے قرض کے عوض انہیں باغ کا پورا پھل پیش کیا کہ وہ اس کی کھجوریں لے لیں اور میرے باپ کو قرض سے رہا کر دیں، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا، جس کا مطلب یہ ہے قرض کے متعلق قرض خواہوں سے کسی بھی طریقے سے صلح ہو سکتی ہے۔ (2) اس روایت میں اوقات نماز کے متعلق اختلاف بیان ہوا ہے۔ یہ اختلاف نقصان دہ نہیں کیونکہ اصل مقصود تو رسول اللہ ﷺ کی برکت بتانا تھا جو کھجوروں میں پیدا ہوئی۔ اسے راویوں نے بیان کیا ہے۔ تعیین نماز میں اختلاف سے اصل روایت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ دراصل حضرت جابر ؓ اپنے قرض خواہوں کا قرض ادا کر کے بار بار رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے کے لیے آتے ہوں گے۔ بعض قرض خواہوں کا قرض دینے کی اطلاع ظہر کے وقت جبکہ دوسرے گروہ کے قرض کی ادائیگی سے عصر کے وقت مطلع کیا اور تیسرے گروہ کا قرض ادا کر کے مغرب کے وقت اطلاع کی۔ اس طرح تمام روایات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ (3) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کو اطلاع دینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ آپ کے معجزے اور حضرت جابر ؓ کے قرض کی ادائیگی سے خوش ہو جائیں کیونکہ یہ حضرات بھی حضرت جابر ؓ کے اس قرض سے بہت فکر مند تھے۔ رضي اللہ عنهم أجمعین (4) واضح رہے کہ مدینہ طیبہ میں کھجور کی بہت سی قسمیں ہوتی تھیں۔ اس میں عجوہ، کھجور کی بہترین قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے ایسی برکت پڑی کہ تمام قرض اور اخراجات ادا کرنے کے بعد بھی کافی کھجوریں بچ گئی۔ حضرت جابر ؓ بڑے خوش نصیب تھے کہ انہیں یہ فیضان نبوی حاصل ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ا بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ اگر وہ شریک اس طرح صلح کرلیں کہ ایک قرض لے لے اور دوسرانقد مال حاصل کرلے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر اگر ایک کا حصہ ہلاک ہوگیا تو(تقسیم کے بعد) وہ اپنے ساتھی سے رجوع نہیں کرسکے گا۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ میرے والد جب شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ صورت رکھی کہ قرض کے بدلے میں وہ (اس سال کی کھجور کے) پھل لے لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اس سے قرض پورا نہیں ہوسکے گا، میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جب پھل توڑ کر مربد (وہ جگہ جہاں کھجور خشک کرتے تھے) میں جمع کردو (تو مجھے خبردو) چنانچہ میں نے آپ ﷺ کو خبر دی۔ آپ ﷺ تشریف لائے۔ ساتھ میں ابوبکر اور عمر ؓ بھی تھے۔ آپ وہاں کھجور کے ڈھیر پر بیٹھے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر فرمایا کہ اب اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ اور ان کا قرض ادا کردے، چنانچہ کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کا میرے باپ پر قرض رہا اور میں نے اسے ادا نہ کردیا ہو۔ پھر بھی تیرہ وسق کھجور باقی بچ گئی۔ سات وسق عجوہ میں سے اور چھ وسق لون میں سے، یا چھ وسق عجوہ میں سے اور سات وسق لون میں سے، بعد میں میں رسول اللہ ﷺ سے مغرب کے وقت جاکر ملا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ہنسے اور فرمایا، ابوبکر اور عمر ؓ کے یہاں جاکر انہیں بھی یہ واقعہ بتادو۔ چنانچہ میں نے انہیں بتلایا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو جو کرنا تھا آپ نے وہ کیا۔ ہمیں جبھی معلوم ہوگیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ ہشام نے وہب سے اور انہوں نے جابر سے عصر کے وقت (جابر ؓ کی حاضری کا) ذکر کیا ہے اور انہوں نے نہ ابوبکر ؓ کا ذکر کیا اور نہ ہنسنے کا، یہ بھی بیان کیا کہ (جابر ؓ نے کہا) میرے والد اپنے اوپر تیس وسق قرض چھوڑ گئے تھے اور ابن اسحاق نے وہب سے اور انہوں نے جابر ؓ سے ظہر کی نماز کا ذکر کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ عجوہ مدینہ کی کھجور میں بہت اعلیٰ قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر ؓ نے اپنا سارا قرض ادا کردیا ، پھر بھی کافی بچت ہوگئی۔ خوش نصیب تھے حضرت جابر ؓ جن کو یہ فضیلت نبوی حاصل ہوئی۔ مضمون باب کی ہر شق حدیث ہذا سے ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA): My father died and was in debt. I suggested that his creditors take the fruits (i.e. dates) of my garden in lieu of the debt of my father, but they refused the offer, as they thought that it would not cover the full debt. So, I went to the Prophet (ﷺ) and told him about it. He said (to me), "When you pluck the dates and collect them in the Mirbad (i.e. a place where dates are dried), call me (Allah's Apostle) (ﷺ) ." Finally he came accompanied by Abu Bakr (RA) and 'Umar and sat on the dates and invoked Allah to bless them. Then he said, "Call your creditors and give them their full rights." So, I paid all my father's creditors in full and yet thirteen extra Wasqs of dates remained, seven of which were 'Ajwa and six were Laun or six of which were Ajwa and seven were Laun. I met Allah's Apostle (ﷺ) at sunset and informed him about it. On that he smiled and said, "Go to Abu Bakr (RA) and 'Umar and tell them about it." They said, "We perceived that was going to happen, as Allah's Apostle (ﷺ) did what he did."