باب : اسلام میں داخل ہوتے وقت اور معاملات بیع و شراء میں کون سی شرطیں لگانا جائز ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions permissible on embracing Islam, and in contracts and transactions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2711.
حضرت مروان بن حکم ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، وہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین سے بیان کرتے ہیں کہ جب سہیل بن عمرونے صلح حدیبیہ کے دن صلح نامہ لکھوایا تو اس نے نبی ﷺ کے سامنے یہ شرط رکھی کہ ہمارا جو آدمی بھی آپ کے پاس آئے گا، خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو اسے، ہمارے ہاں واپس کرنا ہوگا۔ آپ اس کے ہمارے درمیان راستہ خالی کر دیں گے۔ مسلمانوں نے اس شرط کو ناپسندکیا اور وہ اس کے باعث غصے سے بھر گئے لیکن سہیل اس شرط کے بغیر صلح کرنے پر تیارنہ ہوا۔ آخر کار نبی ﷺ نے اس شرط پر صلح کر لی اور اسی روز ابو جندل ؓ کو اس کے والد سہیل بن عمرو ؓ کے حوالے کردیا۔ پھر مردوں میں سے جو بھی آتا آپ اسے اس مدت کے دوران میں واپس کرتے رہے اگرچہ وہ مسلمان ہو کرآتا۔ اب کچھ اہل ایمان خواتین بھی ہجرت کرکے آئیں ان عورتوں میں عقبہ بن ابو معیط کی بیٹی اُم کلثوم ؓ بھی تھیں جنھوں نے اس دن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی اور وہ نوجوان عورت تھیں۔ ان کے اہل خانہ آئے اور نبی ﷺ سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے، لیکن آپ نے اسے ان کی طرف واپس نہ کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق حکم نازل کیا تھا۔ ’’جب اہل ایمان خواتین تمھاری طرف ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو (ان کی جانچ پڑتال کرو۔) اللہ تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ اگر تمھیں ان کے ایمان کا یقین ہو جائے تو پھر انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ ایسی عورتیں کا فروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2615
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2711
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2711
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2711
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت مروان بن حکم ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، وہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین سے بیان کرتے ہیں کہ جب سہیل بن عمرونے صلح حدیبیہ کے دن صلح نامہ لکھوایا تو اس نے نبی ﷺ کے سامنے یہ شرط رکھی کہ ہمارا جو آدمی بھی آپ کے پاس آئے گا، خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو اسے، ہمارے ہاں واپس کرنا ہوگا۔ آپ اس کے ہمارے درمیان راستہ خالی کر دیں گے۔ مسلمانوں نے اس شرط کو ناپسندکیا اور وہ اس کے باعث غصے سے بھر گئے لیکن سہیل اس شرط کے بغیر صلح کرنے پر تیارنہ ہوا۔ آخر کار نبی ﷺ نے اس شرط پر صلح کر لی اور اسی روز ابو جندل ؓ کو اس کے والد سہیل بن عمرو ؓ کے حوالے کردیا۔ پھر مردوں میں سے جو بھی آتا آپ اسے اس مدت کے دوران میں واپس کرتے رہے اگرچہ وہ مسلمان ہو کرآتا۔ اب کچھ اہل ایمان خواتین بھی ہجرت کرکے آئیں ان عورتوں میں عقبہ بن ابو معیط کی بیٹی اُم کلثوم ؓ بھی تھیں جنھوں نے اس دن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی اور وہ نوجوان عورت تھیں۔ ان کے اہل خانہ آئے اور نبی ﷺ سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے، لیکن آپ نے اسے ان کی طرف واپس نہ کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق حکم نازل کیا تھا۔ ’’جب اہل ایمان خواتین تمھاری طرف ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو (ان کی جانچ پڑتال کرو۔) اللہ تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ اگر تمھیں ان کے ایمان کا یقین ہو جائے تو پھر انھیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ ایسی عورتیں کا فروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبردی، انہوں نے خلیفہ مروان اور مسور بن مخرمہ ؓ سے سنا، یہ دونوں حضرات اصحاب رسول اللہ ﷺ سے خبر دیتے تھے کہ جب سہیل بن عمرو نے (حدیبیہ میں کفار قریش کی طرف سے معاہدہ صلح) لکھوایا تو جو شرائط نبی کریم ﷺ کے سامنے سہیل نے رکھی تھیں، ان میں یہ شرط بھی تھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص اگر آپ کے یہاں (فرار ہوکر) چلا جائے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو تو آپ کو اسے ہمارے حوالہ کرنا ہوگا۔ مسلمان یہ شرط پسند نہیں کررہے تھے اور اس پر انہیں دکھ ہوا تھا۔ لیکن سہیل نے اس شرط کے بغیر صلح قبول نہ کی۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اسی شرط پر صلح نامہ لکھوالیا۔ اتفاق سے اسی دن ابوجندل ؓ کو جو مسلمان ہوکر آیا تھا (معاہدہ کے تحت بادل ناخواستہ) ان کے والد سہیل بن عمرو کے حوالے کردیاگیا۔ اسی طرح مدت صلح میں جو مرد بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں (مکہ سے بھاگ کر آیا) آپ نے اسے ان کے حوالے کردیا۔ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ رہا ہو۔ لیکن چند ایمان والی عورتیں بھی ہجرت کرکے آگئی تھیں، ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ؓ بھی ان میں شامل تھیں جو اسی دن (مکہ سے نکل کر) آپ کی خدمت میں آئی تھیں، وہ جوان تھیں اور جب ان کے گھر والے آئے اور رسول اللہ ﷺ سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو آپ ﷺ نے انہیں ان کے حوالے نہیں فرمایا، بلکہ عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ (سورۃ ممتحنہ میں) ارشاد فرماچکا تھا کہ ”جب مسلمان عورتیں تمہارے یہاں ہجرت کرکے پہنچیں تو پہلے تم ان کا امتحان لے لو، یوں تو ان کے ایمان کے متعلق جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد تک کہ ” کفار و مشرکین ان کے لیے حلال نہیں ہیں الخ“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Marwan and al-Miswar bin Makhrama (RA): (from the companions of Allah's Apostle) (ﷺ) When Suhail bin Amr agreed to the Treaty (of Hudaibiya), one of the things he stipulated then, was that the Prophet (ﷺ) should return to them (i.e. the pagans) anyone coming to him from their side, even if he was a Muslim; and would not interfere between them and that person. The Muslims did not like this condition and got disgusted with it. Suhail did not agree except with that condition. So, the Prophet (ﷺ) agreed to that condition and returned Abu Jandal to his father Suhail bin 'Amr. Thenceforward the Prophet (ﷺ) returned everyone in that period (of truce) even if he was a Muslim. During that period some believing women emigrants including Um Kalthum bint Uqba bin Abu Muait who came to Allah's Apostle (ﷺ) and she was a young lady then. Her relative came to the Prophet (ﷺ) and asked him to return her, but the Prophet (ﷺ) did not return her to them for Allah had revealed the following Verse regarding women: "O you who believe! When the believing women come to you as emigrants. Examine them, Allah knows best as to their belief, then if you know them for true believers, Send them not back to the unbelievers, (for) they are not lawful (wives) for the disbelievers, Nor are the unbelievers lawful (husbands) for them (60.10)