Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions in share-cropping)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2722.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے ہم لوگ سب سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کھیت کے ایک حصے میں پیداوار ہوتی اور دوسرےمیں نہ ہوتی، اس لیے ہمیں اس سے منع کر دیا گیا لیکن نقدی کے عوض کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا گیا۔
تشریح:
(1) مزارعت میں یہ شرط منع ہے کہ فلاں ٹکڑے کی پیداوار ہم لیں گے اور دوسرے ٹکڑے کی پیداوار سے تم فائدہ اٹھاؤ کیونکہ اس میں دھوکے کا امکان ہے۔ شاید اس ٹکڑے میں پیداوار نہ ہو جو مزارع کو دیا گیا ہے۔ ایسی شرط جس کی رو سے زمین کے ایک حصے کی پیداوار مالک لے اور مزارع محروم رہے، ناجائز ہے۔ (2) مزارعت کی دو صورتیں جائز ہیں: ایک یہ کہ سونے چاندی یا روپے کے عوض اسے ٹھیکے پر دے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ نصف یا ثلث پیداوار پر کاشت کے لیے دی جائے کہ اس زمین سے جو بھی پیداوار ہو طے شدہ حصے کے مطابق اسے تقسیم کر لیا جائے گا۔ کسی خاص ٹکڑے کی پیداوار کا تعین نہ کیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ جس شرط کے مطابق مالک اور مزارع میں سے کسی ایک کو نقصان اٹھانا پڑے وہ شرعاً جائز نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2625
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2722
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2722
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2722
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: انصار مدینہ میں سے ہم لوگ سب سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کھیت کے ایک حصے میں پیداوار ہوتی اور دوسرےمیں نہ ہوتی، اس لیے ہمیں اس سے منع کر دیا گیا لیکن نقدی کے عوض کرائے پر دینے سے منع نہیں کیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مزارعت میں یہ شرط منع ہے کہ فلاں ٹکڑے کی پیداوار ہم لیں گے اور دوسرے ٹکڑے کی پیداوار سے تم فائدہ اٹھاؤ کیونکہ اس میں دھوکے کا امکان ہے۔ شاید اس ٹکڑے میں پیداوار نہ ہو جو مزارع کو دیا گیا ہے۔ ایسی شرط جس کی رو سے زمین کے ایک حصے کی پیداوار مالک لے اور مزارع محروم رہے، ناجائز ہے۔ (2) مزارعت کی دو صورتیں جائز ہیں: ایک یہ کہ سونے چاندی یا روپے کے عوض اسے ٹھیکے پر دے دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ نصف یا ثلث پیداوار پر کاشت کے لیے دی جائے کہ اس زمین سے جو بھی پیداوار ہو طے شدہ حصے کے مطابق اسے تقسیم کر لیا جائے گا۔ کسی خاص ٹکڑے کی پیداوار کا تعین نہ کیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ جس شرط کے مطابق مالک اور مزارع میں سے کسی ایک کو نقصان اٹھانا پڑے وہ شرعاً جائز نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حنظلہ زرقی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج ؓ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ ہم اکثر انصار کاشتکاری کیا کرتے تھے اور ہم زمین بٹائی پر دیتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ کسی کھیت کے ایک ٹکڑے میں پیداوار ہوتی اور دوسرے میں نہ ہوتی، اس لیے ہمیں اس سے منع کردیا گیا۔ لیکن چاندی (روپے وغیرہ) کے لگان سے منع نہیں کیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ مزارعت منع ہے جس میں یہ قرار داد ہو کہ اس قطعہ کی پیداوار ہم لیں گے، اس قطعہ کی تم لینا، کیوں کہ اس میں دھوکہ ہے۔ شاید اس قطعہ میں کچھ پیدا نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi bin Khadij (RA): We used to work on the fields more than the other Ansar, and we used to rent the land (for the yield of a specific portion of it). But sometimes that portion or the rest of the land did not give any yield, so we were forbidden (by the Prophet) to follow such a system, but we were allowed to rent the land for money.