باب : جو شرطیں حدود اللہ میں جائز نہیں ہیں ان کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions not permissible in legal punishments)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2724.
حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ کریں۔ دوسرا حریف جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا اس نے بھی کہا : ہاں!آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیں اور مجھے اجازت دیں (کہ میں واقعہ بیان کردوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بیان کرو۔‘‘ اس نے کہا: میرا بیٹھا اس شخص کا ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹےپرر جم ہے، چنانچہ میں نے اس کے عوض ایک سو بکری اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی۔ پھر میں نے اہل علم سے (مسئلہ) پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لیے جلاوطن کرنا ضروری ہے۔ اور اس شخص کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں ضرور تمھارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جائیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے واجب ہیں۔ (علاوہ ازیں) وہ ایک سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جائے گا۔ اے انیس!کل صبح اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ گناہ کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کردو۔‘‘ چنانچہ وہ صبح اس کے پاس گئے تو اس نے جرم کا اعتراف کر لیا، بنا بریں رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق اسے رجم کر دیا گیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب الصلح میں بھی بیان کیا ہے۔ وہاں مقصود یہ تھا کہ وہ صلح جو حدود اللہ کے خلاف کی جائے، باطل ہے۔ اس مقام پر امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر وہ شرط جس سے حدود اللہ کو ختم کرنا مقصود ہو، وہ بھی باطل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی شرط کو کالعدم قرار دیا ہے کیونکہ حدود، اللہ کا حق ہے جسے بندوں کی باہمی صلح سے ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت ربیع بنت نضر ؓ کا واقعہ پہلے بیان ہوا ہے جب انہوں نے ایک جوان عورت کا اگلا دانت توڑ دیا تھا تو دیت دے کر قصاص سے معافی مل گئی۔ (2) واضح رہے کہ حدود کا نفاذ اسلامی حکومت کا کام ہے، کوئی آدمی ازخود انہیں قائم نہیں کر سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2627
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2724
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2724
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2724
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق میرا فیصلہ کریں۔ دوسرا حریف جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا اس نے بھی کہا : ہاں!آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمادیں اور مجھے اجازت دیں (کہ میں واقعہ بیان کردوں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بیان کرو۔‘‘ اس نے کہا: میرا بیٹھا اس شخص کا ملازم تھا۔ اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹےپرر جم ہے، چنانچہ میں نے اس کے عوض ایک سو بکری اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی۔ پھر میں نے اہل علم سے (مسئلہ) پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لیے جلاوطن کرنا ضروری ہے۔ اور اس شخص کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں ضرور تمھارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس کی جائیں اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے واجب ہیں۔ (علاوہ ازیں) وہ ایک سال کے لیے جلاوطن بھی کیا جائے گا۔ اے انیس!کل صبح اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ گناہ کا اعتراف کر لے تو اسے سنگسار کردو۔‘‘ چنانچہ وہ صبح اس کے پاس گئے تو اس نے جرم کا اعتراف کر لیا، بنا بریں رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق اسے رجم کر دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب الصلح میں بھی بیان کیا ہے۔ وہاں مقصود یہ تھا کہ وہ صلح جو حدود اللہ کے خلاف کی جائے، باطل ہے۔ اس مقام پر امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہر وہ شرط جس سے حدود اللہ کو ختم کرنا مقصود ہو، وہ بھی باطل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی شرط کو کالعدم قرار دیا ہے کیونکہ حدود، اللہ کا حق ہے جسے بندوں کی باہمی صلح سے ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح ہو سکتی ہے جیسا کہ حضرت ربیع بنت نضر ؓ کا واقعہ پہلے بیان ہوا ہے جب انہوں نے ایک جوان عورت کا اگلا دانت توڑ دیا تھا تو دیت دے کر قصاص سے معافی مل گئی۔ (2) واضح رہے کہ حدود کا نفاذ اسلامی حکومت کا کام ہے، کوئی آدمی ازخود انہیں قائم نہیں کر سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان، ان سے ابن شہا ب نے، ا ن سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابو ہر یرہ ؓ اور ز ید بن خالدجہنی ؓ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی صحابی رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ میرا فیصلہ کتاب اللہ سے کردیں۔ دوسرے فریق نے جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، کہا کہ جی ہاں! کتاب اللہ سے ہی ہمارا فیصلہ فرمائیے، اور مجھے (اپنا مقدمہ پیش کرنے کی) اجازت دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پیش کر۔ اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ پھر اس نے ان کی بیوی سے زنا کرلیا، جب مجھے معلوم ہوا کہ (زنا کی سزا میں) میرا لڑکا رجم کردیا جائے گا تو میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک باندی دی، پھر علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کو (زنا کی سزا میں کیوں کہ وہ غیر شادی شدہ تھا) سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کردیا جائے گا۔ البتہ اس کی بیوی رجم کردی جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ ہی سے کروں گا۔ باندی اور بکریاں تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن کیا جائے گا۔ اچھا انیس! تم اس عورت کے یہاں جاؤ، اگر وہ بھی (زناکا) اقرار کرلے، تو اسے رجم کردو (کیوں کہ وہ شادی شدہ تھی) بیان کیا کہ انیس ؓ اس عورت کے یہاں گئے اور اس نے اقرار کرلیا، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے وہ رجم کی گئی۔
حدیث حاشیہ:
سو بکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے فدیہ دے کر اس کو چھڑالیا، ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کیوں کہ اس نے زنا کی حد کے بدلے یہ شرط کی سوبکریاں اور ایک لونڈی اس کی طرف سے دوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو باطل اور لغو قرار دیا۔ حدود اللہ کے حقوق میں سے ہیں۔ جوبندوں کی باہمی صلح سے ٹالی نہیں جاسکتی۔ جب بھی کوئی ایسا جرم ثابت ہوگا حد ضرور جاری کی جائے گی۔ البتہ جو سزائیں انسانی حقوق کی وجہ سے دی جاتی ہیں ان میں باہمی صلح کی صورتیں نکالی جاسکتی ہیں۔ زانیہ عورت کے لیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے جو چشم دید بیان دیں، یا عورت و مرد خود اقرار کرلیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ حدود کا قائم کرنا اسلامی شرعی اسٹیٹ کا کام ہے۔ جہاں قوانین اسلامی کا اجراءمسلم ہو۔ اگر کوئی اسٹیٹ اسلامی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ حدود اللہ کو قائم نہیں کرتی تو وہ عنداللہ سخت مجرم ہے۔ زانی مرد غیرشادی شدہ کی حدود ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔ رجم کے لیے آخرمیں خلیفہ وقت کا حکم ضروری ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) and Zaid bin Khalid Al-Juhani (RA): A bedouin came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's apostle! I ask you by Allah to judge My case according to Allah's Laws." His opponent, who was more learned than he, said, "Yes, judge between us according to Allah's Laws, and allow me to speak." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Speak." He (i .e. the bedouin or the other man) said, "My son was working as a laborer for this (man) and he committed illegal sexual intercourse with his wife. The people told me that it was obligatory that my son should be stoned to death, so in lieu of that I ransomed my son by paying one hundred sheep and a slave girl. Then I asked the religious scholars about it, and they informed me that my son must be lashed one hundred lashes, and be exiled for one year, and the wife of this (man) must be stoned to death." Allah's Apostle (ﷺ) said, "By Him in Whose Hands my soul is, I will judge between you according to Allah's Laws. The slave-girl and the sheep are to be returned to you, your son is to receive a hundred lashes and be exiled for one year. You, Unais, go to the wife of this (man) and if she confesses her guilt, stone her to death." Unais went to that woman next morning and she confessed. Allah's Apostle (ﷺ) ordered that she be stoned to death.