باب: مزارعت میں مالک نے کاشکار سے یہ شرط لگائی کہ جب میں چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: If the landlord stipulates that he would terminate the contract whenever he likes)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2730.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ ’’جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین !آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال پر ہمارے ساتھ معاملہ کیا ہے۔ ہمارے ساتھ یہاں رہنے کی شرط بھی طے کی تھی؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھول گیا ہوں (جو آپ نے تیرے لیے فرمایاتھا: )’’اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تجھے خیبر سے نکالا جائے گا اور تیری تیز رفتار اونٹنیاں راتوں رات تجھے بھگا لے جائیں گی؟‘‘ اس یہودی نے جواب دیا: یہ تو ابو القاسم ﷺ کی طرف سے مذاق کے طور پر تھا۔ تب حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے اللہ کے دشمن !تو جھوٹ بولتاہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے انھیں جلا وطن کردیا اور ان کے پھلوں کی قیمت کچھ نقدی کی صورت میں کچھ سازو سامان کی صورت میں اور کچھ اونٹنیوں کی صورت میں ادا کردی۔ سازو سامان میں پالان اور رسیاں وغیرہ بھی تھیں۔ حماد بن سلمہ نے بھی اس روایت کو مرفوع اور مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب کسی سے مزارعت کا معاملہ کیا جائے تو سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے مزارع کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، جب اس سال کی فصل اٹھا لے گا تو عقد مزارعت ختم ہو گا، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اگر زمین کا مالک مزارع سے یہ شرط کر لے کہ میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر دوں گا تو یہ شرط جائز ہے بشرطیکہ فریقین اسے بخوشی قبول کر لیں۔ (2) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے عجیب اسلوب اختیار کیا ہے۔ کتاب المزارعہ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (إذ قال رب الارض: أقرك ما أقرك الله)’’میں تمہیں ٹھہرائے رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا۔‘‘ اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: (نقركم بها علی ذلك ما شئنا)’’ہم جب تک چاہیں گے تمہیں ٹھہرائے رکھیں گے۔‘‘ اور یہاں عنوان یہ ہے: (إذا شئت أخرجتك) ’’میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔‘‘ اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں: (نقركم ما أقركم الله)’’جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا ہم تمہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے: ایک یہ کہ یہودیوں کا سرزمین خیبر سے نکلنا اللہ نے ان کے مقدر میں لکھا ہوا تھا، انہوں نے یہاں سے ضرور نکلنا تھا۔ دوسرا یہ کہ اگر پہلے دن ہی یہ شرط کر لی جائے کہ ہم جب چاہیں گے بے دخل کر سکیں گے اور فریقین رضامندی سے اس شرط کو قبول کر لیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (3) نیز اگر زمین کا مالک کاشتکار سے کوئی قصور یا خیانت دیکھے تو اسے بے دخل کرنے کا مجاز ہے اگرچہ مزارع اپنا کام شروع کر چکا ہو، مگر جو محنت اس نے کر رکھی ہے اس کا بدل ضرور دینا ہو گا۔ مقصد یہ ہے کہ تمدنی اور معاشرتی امور میں باہمی طور پر معاملات جن شرائط سے طے پا جائیں وہ اگر جائز حدود میں ہوں تو ضرور قابل تسلیم ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2632
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2730
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2730
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2730
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
یعنی مزارعت میں کوئی مدت معین نہ کرے بلکہ زمین کا مالک یوں شرط کرے کہ میں جب چاہوں گا تجھ کو بے دخل کردوں گا‘ یہ شرط بھی جائز ہے بشرطیکہ ہردوفریق خوشی سے منظور کریں۔ مقصد یہ کہ تمدنی و معاشرتی امور میں باہمی طور پر جن شرطوں کے ساتھ معاملات ہوتے ہیں‘ وہ شرطیں جائز حدود میں ہوں تو ضرور قابل تسلیم ہوں گی جیسا کہ یہاں مزارعت کی ایک شرط مزکور ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، کہ خیبرکے یہودیوں نے ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو حضرت عمر ؓ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں سے خیبرکا معاملہ ان کے اموال کے متعلق کیا اور فرمایا تھا۔ ’’جب تک اللہ تعالیٰ تمھیں ٹھہرائے گا ہم تمھیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ وہاں خیبر میں اپنے مال کی دیکھ بھال کے لیے گئے تو رات کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئےہیں۔ وہاں یہودیوں کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ وہی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ہم انھی پر اپنے شبہ کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے انھیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب خیال کرتا ہوں، چنانچہ جب انھوں نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو ابو الحقیق خاندان کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر امومنین !آپ ہمیں کیسے یہاں سے جلاوطن کر سکتے ہیں جبکہ ہمیں محمد ﷺ نے ٹھہرایا اور ہمارے اموال پر ہمارے ساتھ معاملہ کیا ہے۔ ہمارے ساتھ یہاں رہنے کی شرط بھی طے کی تھی؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھول گیا ہوں (جو آپ نے تیرے لیے فرمایاتھا: )’’اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تجھے خیبر سے نکالا جائے گا اور تیری تیز رفتار اونٹنیاں راتوں رات تجھے بھگا لے جائیں گی؟‘‘ اس یہودی نے جواب دیا: یہ تو ابو القاسم ﷺ کی طرف سے مذاق کے طور پر تھا۔ تب حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے اللہ کے دشمن !تو جھوٹ بولتاہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے انھیں جلا وطن کردیا اور ان کے پھلوں کی قیمت کچھ نقدی کی صورت میں کچھ سازو سامان کی صورت میں اور کچھ اونٹنیوں کی صورت میں ادا کردی۔ سازو سامان میں پالان اور رسیاں وغیرہ بھی تھیں۔ حماد بن سلمہ نے بھی اس روایت کو مرفوع اور مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ جب کسی سے مزارعت کا معاملہ کیا جائے تو سال مکمل ہونے سے پہلے پہلے مزارع کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا، جب اس سال کی فصل اٹھا لے گا تو عقد مزارعت ختم ہو گا، لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ اگر زمین کا مالک مزارع سے یہ شرط کر لے کہ میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر دوں گا تو یہ شرط جائز ہے بشرطیکہ فریقین اسے بخوشی قبول کر لیں۔ (2) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے عجیب اسلوب اختیار کیا ہے۔ کتاب المزارعہ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (إذ قال رب الارض: أقرك ما أقرك الله)’’میں تمہیں ٹھہرائے رکھوں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا۔‘‘ اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: (نقركم بها علی ذلك ما شئنا)’’ہم جب تک چاہیں گے تمہیں ٹھہرائے رکھیں گے۔‘‘ اور یہاں عنوان یہ ہے: (إذا شئت أخرجتك) ’’میں جب چاہوں گا تجھے بے دخل کر سکوں گا۔‘‘ اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں: (نقركم ما أقركم الله)’’جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائے گا ہم تمہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘ اس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے: ایک یہ کہ یہودیوں کا سرزمین خیبر سے نکلنا اللہ نے ان کے مقدر میں لکھا ہوا تھا، انہوں نے یہاں سے ضرور نکلنا تھا۔ دوسرا یہ کہ اگر پہلے دن ہی یہ شرط کر لی جائے کہ ہم جب چاہیں گے بے دخل کر سکیں گے اور فریقین رضامندی سے اس شرط کو قبول کر لیں تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (3) نیز اگر زمین کا مالک کاشتکار سے کوئی قصور یا خیانت دیکھے تو اسے بے دخل کرنے کا مجاز ہے اگرچہ مزارع اپنا کام شروع کر چکا ہو، مگر جو محنت اس نے کر رکھی ہے اس کا بدل ضرور دینا ہو گا۔ مقصد یہ ہے کہ تمدنی اور معاشرتی امور میں باہمی طور پر معاملات جن شرائط سے طے پا جائیں وہ اگر جائز حدود میں ہوں تو ضرور قابل تسلیم ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو احمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابو غسان کنانی نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر ؓ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے‘ آپ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹو ٹ گئے۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لئے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر ؓ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنوابی حقیق (ایک یہ ودی خاندان) کاایک شخص تھا’ آیا اور کہا یا امیرالمومنین کیا آپ ہمیں جلاوطن کردیں گے حالانکہ محمد ﷺ نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر ؓ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول ﷺ کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب حضور ﷺ نے کہا تھا کہ تمھارا کیا حال ہوگا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمھارے اونٹ تمہیں راتوں رات لئے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ ابو قاسم حضور ﷺ کا ایک مذاق تھا ۔ عمر ؓ نے فرمایا خدا کے دشمن! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ عمر ؓ نے انہیں شہر بدر کردیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت’ کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کردی۔ اس کی روایت حمادبن سلمہ نے عبید اللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے عمر ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے مختصر طور پر۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : روایت کے شروع سند میں ابو احمد مرار بن حمویہ ہیں۔ جامع الصحیح میں ان سے اور ان کے شیخ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو پیداوار وصول کرنے کے لئے خیبر بھیجا تھا۔ وہاں بدعہد یہودیوں نے موقع پاکر حضرت عبداللہ کو ایک چھت سے نیچے دھکیل دیا اور ان کے ہاتھ پیر توڑدیئے۔ ایسی ہی شرارتوں کی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے خیبر سے یہود کو جلاوطن کردیا۔ خیبر کی فتح کے بعد رسول کریم ﷺ نے مفتوحہ زمینات کا معاملہ خیبر کے یہودیوں سے کرلیا تھا اور کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ یہ فرمایا کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ جب اللہ چاہے گایہ معاملہ ختم کردیا جائے گا۔ اسی بنا پر حضرت عمر ؓ نے اپنے عہدخلافت میں ان کو بے دخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرادیا۔ اس بد عہد قوم نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی’ اس لئے یہ قوم ملعون اور مطرود قرار پائی۔ اسی حدیث سے یہ نکلا کہ زمین کا مالک اگر کاشتکار کا کوئی قصور دیکھے تو اس کو بے دخل کرسکتا ہے گو وہ کام شروع کرچکا ہو مگر اس کے کام کا بدل دینا ہوگا جیسے کہ حضرت عمر ؓ نے کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): When the people of Khaibar dislocated Abdullah bin Umar (RA) 's hands and feet, Umar got up delivering a sermon saying, "No doubt, Allah's Apostle (ﷺ) made a contract with the Jews concerning their properties, and said to them, 'We allow you (to stand in your land) as long as Allah allows you.' Now Abdullah bin Umar (RA) went to his land and was attacked at night, and his hands and feet were dislocated, and as we have no enemies there except those Jews, they are our enemies and the only people whom we suspect, I have made up my mind to exile them." When Umar decided to carry out his decision, a son of Abu Al-Haqiq's came and addressed 'Umar, "O chief of the believers, will you exile us although Muhammad allowed us to stay at our places, and made a contract with us about our properties, and accepted the condition of our residence in our land?" 'Umar said, "Do you think that I have forgotten the statement of Allah's Apostle, i.e.: What will your condition be when you are expelled from Khaibar and your camel will be carrying you night after night?" The Jew replied, "That was joke from Abu-l-Qasim." 'Umar said, "O the enemy of Allah! You are telling a lie." 'Umar then drove them out and paid them the price of their properties in the form of fruits, money, camel saddles and ropes, etc."