باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ نساء میں ) یہ فرمانا کہ وصیت اور قرضے کی ادائیگی کے بعد حصے بٹیں گے
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: The Statement of Allah aza'wajal: "... After the payment of legacies he may have bequeathed or debts...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور منقول ہے کہ قاضی شریح، عمر بن عبد العزیز، طاؤس، عطاءاور عبدالرحمٰن بن اذینہ ان لوگوں نے بیماری میں قرض کا اقرار درست رکھا ہے اور امام حسن بصری نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچا سمجھنا چاہئے جب دنیا میں اس کاآخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ نے کہا اگر بیماروارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کچھ قرضہ نہیں تو یہ ابراءصحیح ہوگا اور رافع بن خدیج ( صحابی ) نے یہ وصیت کی کہ ان کی بیوی فزاریہ کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میںتجھ کو آزاد کر چکا تو جائز ہے۔ اور شعبی نے کہا کہ اگر عورت مرتے وقت یوں کہے میرا خاوند مجھ کو مہر دے چکا ہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہوگا اور بعضے لوگ ( حنفیہ ) کہتے ہیں بیمار کا اقرار کسی وارث کے لئے دوسرے وارثوں کی بدگمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہوگا۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اورمسلمانو! ( دوسرے وارثوں کا حق ) مار لینا درست نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچادو۔ اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث مروی ہے۔ تشریح : اس باب کے ذیل میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ اراد المصنف واللہ اعلم بھذہ الترجمۃ الاحتجاج بما اختارہ من جواز اقرار المریض بالدین مطلقا سواءکان المقرلہ وارثا او اجنبیا ووجہ الدلالۃ انہ سبحانہ وتعالیٰ سوی بین الوصیۃ والدین فی تقدیمھا علی المیراث ولم یفصل فخرجت الوصیۃ للوارث بالدلیل الذی تقدم وبقی الاقرار بالدین علی حالہ الخ یعنی اس باب کے منعقد کرنے سے مصنف کا ارادہ اس امر پر حجت پکڑنا ہے کہ انہوں نے مریض کا قرض کے بارے میں مطلقاً اقرار کرلینا جائز قرار دیا ہے۔ جس کے لئے مریض اقرار کر رہا ہے وہ اس کا وارث ہویا کوئی اجنبی انسان ہو‘ اس لئے کہ آیت شریفہ میں اللہ پاک نے میراث کے اوپر وصیت اور قرض ہر دو کو برابری کے ساتھ مقدم کیا ہے۔ ان ہردو میں کوئی فاصلہ نہیں فرمایا پس وصیت دلیل مقدم کی بنا پر وارث کے لئے منسوخ ہوگئی اور قرض کا اقرار کرلینا اپنی حالت پر قائم رہا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنے خیال کی تائید میں مختلف ائمہ کرام و محدثین عظام کے اقوال استشہاد کے طور پر نقل فرمائے ہیں۔ شارحین لکھتے ہیں قال بعض الناس ای الحنفیۃ یقولون لا یجوز اقرارالمریض لبعض الورثۃ لانہ مظنۃ انہ یرید بہ الا ساءۃ فی آخر الامر ثم ناقضوا حیث جوزوہ اقرارہ للورثۃ بالودیعۃ و نحوہ بمجرد والاستحسان من غیر دلیل یدل علی امتناع ذالک وجواز ھذہ ثم رد علیھم بانہ سوءو ظن بہ وبانہ لا یحل مال المسلمین ای المقر لہ لحدیث اذا اتمن خان کذا فی مجمع البحار یعنی حنفیہ نے کہا کہ بعض وارثوں کے لئے مریض کا اقرار قرض جائز نہیں اس گمان پر کہ ممکن ہے مریض وارث کے حق میں برائی کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس پر پھر مناقصہ پیش کیا ہے بایں طور پر کہ احناف حضرات نے مریض کا ودیعت کے بارے میں کسی وارث کے لئے اقرار کرنا جائز قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال محض استحسان کی بنا پر ہے جس کی کوئی دلیل نہیں جسے اس کے امتناع یا جواز پر پیش کیا جا سکے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے پھر ان پر بایں طور پر رد فرمایا کہ یہ مریض کے ساتھ سوءظن ہے اور بایں طور کہ جس کے لئے مریض اقرار کررہا ہے‘ اس مسلمان کا مال ہڑپ کرنا اس حدیث سے جائز نہیں کہ امانت کا مال نہ ادا کرنا خیانت ہے۔ مریض نے جس وارث وغیرہ کے لئے اقرار کیا ہے وہ مال اس وارث وغیرہ کی امانت ہوگیا جس کی ادائیگی ضروری ہے۔ علامہ عینی نے کہا امانت اور مضاربت کا اقرار اس لئے صحیح ہے کہ قرض میں لزوم ہوتاہے، ان چیزوں میں لزوم نہیں۔ میں کہتا ہوں گو لزوم نہ ہو مگر وارثوں کا نقصان تو ان میں بھی محتمل ہے جیسے قرض میں اور جب علت موجود ہے تو حکم بھی وہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اعتراض امام بخاری کا صحیح ہے۔ حدیث ایاکم و ظنکو امام بخاری نے کتاب الادب میں وصل کیا۔ یہ حدیث لاکر امام بخاری نے حنفیہ کا رد کیا جو بد گمانی ناجوازی کی علت قرار دیتے ہیں۔ علامہ عینی نے کہا ہم بدگمانی کو تو علت ہی قرار نہیں دیتے پھر یہ استدلال بے کار ہے اور اگر مان لیں تب بھی حدیث سے بدگمانی منع ہے اور یہ گمان بدگمان نہیں ہے میں کہتا ہوں جب ایک مسلمان کو مرتے وقت جھوٹا سمجھا تو اس سے بڑھ کر اور کیا بدگمانی ہوگی۔ حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا ہے کہ مریض پر جب کسی کا قرض ہو تو اس کا اقرار کرنا چاہئے۔ ورنہ وہ خیانت کا مرتکب ہو گا اور جب اقرارکرنا واجب ہوا تو اس کا اقرار معتبر بھی ہوگا ورنہ اقرار کے واجب کرنے سے فائدہ ہی کیا ہے اور آیت سے یہ نکالا کہ قرض بھی دوسرے کی گویا امانت ہے خواہ وہ وارث ہو یا نہ ہو۔ پس وارث کے لئے اقرار صحیح ہوگا۔ عینی کا یہ اعتراض کہ قرض کو امانت نہیں کہہ سکتے اور آیت میں امانت کی ادائیگی کا حکم ہے‘ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ امانت سے یہاں لغوی امانت مراد ہے یعنی دوسرے کا حق نہ کہ شرعی امانت اور قرض لغوی امانت میں داخل ہے۔ اس آیت کا شان نزول اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے عثمان بن طلحہ شیی رحمہ اللہ سے کعبے کی کنجی لی اور اندر گئے۔ اس کنجی کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مانگا اس وقت یہ آیت اتری‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کنجی پھر شیی کو دے دی جو آج تک ان کے خاندان میں چلی آتی ہے۔ یہی وہ خاندان ہے جو قبل اسلام سے آج تک کعبہ شریف کی کنجی کا محافظ چلا آرہاہے۔ اسلامی دور میں بھی اسی خاندان کو اس خدمت پر بحال رکھا گیا اور آج سعودی حکومت کے دور میں بھی یہی خاندان ہے جو کعبہ شریف کی کنجی کا محافظ ہے۔ اگر امیر حکومت سعودی بھی کعبہ میں داخل ہو نا چاہیں تو اسی خاندان سے ان کو یہ کنجی حاصل کرنا ضروری ہے اور واپسی کے بعد واپس کر دینا بھی ضروری ہے۔ اس دور میں حجاز میں کتنے سیاسی انقلابات آئے مگر اس نظام میں کسی دور میں فرق نہیں آیا ( اللہ تعالیٰ اس نظام کو ہمیشہ قائم دائم رکھے آمین ) حدیث لا صدقۃ الا الخاس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الزکوٰۃ میں وصل کیا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ دین ( قرض ) کا ادا کرنا وصیت پر مقدم ہے‘ اس لئے کہ وصیت مثل صدقہ کے ہے اور جو شخص مدیون ( مقروض ) ہو وہ مالدار نہیں ہے ۔ ( تفسیر وحیدی )
2749.
حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: وہ جب بات کر تا ہے تو جھوٹ بولتاہے، جب ا س کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتاہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق ترک خیانت واجب ہے کیونکہ خیانت کرنا تو منافق کی علامت ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اس بنا پر قرض مریض کے ذمے ہے وہ بھی گویا ایک امانت ہے، اس کا اقرار نہ کرنا خیانت کے مترادف ہے جو نفاق کی نشانی ہے۔ اس کا ادا کرنا مریض کی ذمے داری ہے۔ وہ اس صورت میں ادا ہو گا جب اس کا اقرار کیا جائے۔ جب اقرار کر لیا تو اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر اقرار کا کیا فائدہ، لہذا ادائے امانت اور ترک خیانت میں وارث اور غیر وارث کی تفریق ایجاد بندہ اور خود ساختہ ہے۔ (2) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مریض کا قرض کے متعلق اقرار صحیح ہے اور امانت کی ادائیگی، خواہ وارث کے لیے ہو یا غیر وارث کے لیے دونوں صورتوں میں اس کا اقرار معتبر ہے۔ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ انکار استحسان اور قیاس کی بنیاد پر ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2649
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2749
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2749
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2749
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مریض کسی کے لیے مطلق طور پر قرض کا اقرار کر سکتا ہے۔ اس کا اقرار صحیح ہے، خواہ یہ اقرار وارث کے لیے ہو یا کسی اجنبی کے لیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وصیت اور قرض کی ادائیگی دونوں کو ترکے کی تقسیم پر مقدم کیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "وارث کے لیے وصیت ناجائز ہے۔" (جامع الترمذی، الوصایا، حدیث: 2121) اس ارشاد نبوی سے وصیت خارج ہو گئی، البتہ قرض کا اقرار اپنی حالت پر برقرار رہا، لہذا قرض کا اقرار کر سکتا ہے، خواہ کسی وارث کے لیے ہو یا غیر وارث اجنبی کے لیے۔ دونوں صورتوں میں اس کا اقرار صحیح ہو گا۔ اس موقف کی تائید میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک دلائل پیش کیے ہیں، پہلی دلیل: آیت کریمہ ہے جسے بطور عنوان اختیار کیا گیا ہے جس کی ہم نے وضاحت کر دی ہے۔ دوسری دلیل: بہت سے تابعین کے اقوال و آثار ہیں، مثلاً: قاضی شریح، حضرت عمر بن عبدالعزیز، طاؤس، عطاء اور ابن اذینہ وغیرہ، یہ سب اس بات کے قائل ہیں کہ مریض کا وارث کے حق میں قرض کا اقرار صحیح ہے۔ ان کے علاوہ حسن بصری، ابراہیم نخعی، حکم بن عتبہ اور امام شعبی کا موقف ہے کہ مریض کا قرض کے متعلق اقرار صحیح ہے، نیز حضرت رافع بن خدیج نے دیگر صحابہ کی موجودگی میں اپنی بیوی فزاریہ کے متعلق اقرار کیا تھا، اس پر کسی صحابی نے انکار نہیں کیا۔ ایک اور صحابی سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ مریض کا قرض کے متعلق اقرار اور تصرف صحیح ہے۔ تیسری دلیل: ایک مرفوع حدیث میں ہے: "منافق آدمی کے پاس جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔" اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی وارث کے قرض کا اقرار نہ کرنا خیانت ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے، لہذا مریض کا اقرار صحیح اور نافذ ہے۔ چوتھی دلیل: وہ آیت کریمہ جس میں امانت واپس کرنے کا ذکر ہے، یہ آیت مطلق ہے جو وارث اور غیر وارث دونوں کو شامل ہے۔ دونوں کے لیے ادائے امانت اور ترک خیانت ضروری ہے، اس لیے مریض کے اقرار کو تسلیم کیے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات پر جو مریض کے اقرار کو صحیح تسلیم نہیں کرتے دو اعتراض کیے ہیں: ٭ ان کے نزدیک مریض کا اقرار اس لیے صحیح نہیں کہ دوسرے ورثاء کے دل میں اس کے متعلق بدظنی پیدا ہو گی کہ وہ ہمیں محروم کرنا چاہتا ہے، اس لیے مریض کو اس الزام سے بچانے کے لیے یہی طریقہ ہے کہ اس کے اقرار ہی کو صحیح تسلیم نہ کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں بدگمانی کی ممانعت ہے، لہذا ورثاء کو اپنے مورث مریض کے متعلق بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ٭ ان حضرات کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں کیونکہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ مریض کا قرض سے متلق اقرار صحیح نہیں، دوسری طرف مال تجارت، سرمایہ یا امانت کے اقرار کو صحیح مانتے ہیں۔ یہ لوگ مریض کے اقرار کو کبھی معتبر اور کبھی غیر معتبر کہتے ہیں، اس بنا پر ان کی بات میں کوئی وزن نہیں، حالانکہ جس وجہ سے مریض کا قرض کے متعلق اقرار معتبر نہیں وہ وجہ دیگر صورتوں میں بھی موجود ہے۔ اگر قرض کا اقرار کرنے سے ورثاء کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو ان صورتوں میں بھی یہ اندیشہ موجود ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مریض کا کسی وارث کے لیے قرض کا اقرار کرنا صحیح ہے اور جو حضرات اس کے قائل نہیں وہ خود تضادات کا شکار ہیں۔ وہ محض استحسان کے طور پر ایسا کہتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں جو ان کے موقف کی تائید کرتی ہو۔ واللہ اعلم۔ مذکورہ بالا بیشتر آثار مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہیں اور کئی آثار کی اسناد ضعیف ہیں جس کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی يُذكر کے صیغے سے اشارہ کیا ہے۔ آخر میں مذکور دونوں مرفوع روایات خود امام بخاری رحمہ اللہ نے حسب ترتیب کتاب الادب (حدیث: 6066) اور کتاب الایمان (حدیث: 34) میں متصل سند سے بیان کی ہیں۔
اور منقول ہے کہ قاضی شریح، عمر بن عبد العزیز، طاؤس، عطاءاور عبدالرحمٰن بن اذینہ ان لوگوں نے بیماری میں قرض کا اقرار درست رکھا ہے اور امام حسن بصری نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچا سمجھنا چاہئے جب دنیا میں اس کاآخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ نے کہا اگر بیماروارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کچھ قرضہ نہیں تو یہ ابراءصحیح ہوگا اور رافع بن خدیج ( صحابی ) نے یہ وصیت کی کہ ان کی بیوی فزاریہ کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میںتجھ کو آزاد کر چکا تو جائز ہے۔ اور شعبی نے کہا کہ اگر عورت مرتے وقت یوں کہے میرا خاوند مجھ کو مہر دے چکا ہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہوگا اور بعضے لوگ ( حنفیہ ) کہتے ہیں بیمار کا اقرار کسی وارث کے لئے دوسرے وارثوں کی بدگمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہوگا۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اورمسلمانو! ( دوسرے وارثوں کا حق ) مار لینا درست نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچادو۔ اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث مروی ہے۔ تشریح : اس باب کے ذیل میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ اراد المصنف واللہ اعلم بھذہ الترجمۃ الاحتجاج بما اختارہ من جواز اقرار المریض بالدین مطلقا سواءکان المقرلہ وارثا او اجنبیا ووجہ الدلالۃ انہ سبحانہ وتعالیٰ سوی بین الوصیۃ والدین فی تقدیمھا علی المیراث ولم یفصل فخرجت الوصیۃ للوارث بالدلیل الذی تقدم وبقی الاقرار بالدین علی حالہ الخ یعنی اس باب کے منعقد کرنے سے مصنف کا ارادہ اس امر پر حجت پکڑنا ہے کہ انہوں نے مریض کا قرض کے بارے میں مطلقاً اقرار کرلینا جائز قرار دیا ہے۔ جس کے لئے مریض اقرار کر رہا ہے وہ اس کا وارث ہویا کوئی اجنبی انسان ہو‘ اس لئے کہ آیت شریفہ میں اللہ پاک نے میراث کے اوپر وصیت اور قرض ہر دو کو برابری کے ساتھ مقدم کیا ہے۔ ان ہردو میں کوئی فاصلہ نہیں فرمایا پس وصیت دلیل مقدم کی بنا پر وارث کے لئے منسوخ ہوگئی اور قرض کا اقرار کرلینا اپنی حالت پر قائم رہا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنے خیال کی تائید میں مختلف ائمہ کرام و محدثین عظام کے اقوال استشہاد کے طور پر نقل فرمائے ہیں۔ شارحین لکھتے ہیں قال بعض الناس ای الحنفیۃ یقولون لا یجوز اقرارالمریض لبعض الورثۃ لانہ مظنۃ انہ یرید بہ الا ساءۃ فی آخر الامر ثم ناقضوا حیث جوزوہ اقرارہ للورثۃ بالودیعۃ و نحوہ بمجرد والاستحسان من غیر دلیل یدل علی امتناع ذالک وجواز ھذہ ثم رد علیھم بانہ سوءو ظن بہ وبانہ لا یحل مال المسلمین ای المقر لہ لحدیث اذا اتمن خان کذا فی مجمع البحار یعنی حنفیہ نے کہا کہ بعض وارثوں کے لئے مریض کا اقرار قرض جائز نہیں اس گمان پر کہ ممکن ہے مریض وارث کے حق میں برائی کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس پر پھر مناقصہ پیش کیا ہے بایں طور پر کہ احناف حضرات نے مریض کا ودیعت کے بارے میں کسی وارث کے لئے اقرار کرنا جائز قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال محض استحسان کی بنا پر ہے جس کی کوئی دلیل نہیں جسے اس کے امتناع یا جواز پر پیش کیا جا سکے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے پھر ان پر بایں طور پر رد فرمایا کہ یہ مریض کے ساتھ سوءظن ہے اور بایں طور کہ جس کے لئے مریض اقرار کررہا ہے‘ اس مسلمان کا مال ہڑپ کرنا اس حدیث سے جائز نہیں کہ امانت کا مال نہ ادا کرنا خیانت ہے۔ مریض نے جس وارث وغیرہ کے لئے اقرار کیا ہے وہ مال اس وارث وغیرہ کی امانت ہوگیا جس کی ادائیگی ضروری ہے۔ علامہ عینی نے کہا امانت اور مضاربت کا اقرار اس لئے صحیح ہے کہ قرض میں لزوم ہوتاہے، ان چیزوں میں لزوم نہیں۔ میں کہتا ہوں گو لزوم نہ ہو مگر وارثوں کا نقصان تو ان میں بھی محتمل ہے جیسے قرض میں اور جب علت موجود ہے تو حکم بھی وہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اعتراض امام بخاری کا صحیح ہے۔ حدیث ایاکم و ظنکو امام بخاری نے کتاب الادب میں وصل کیا۔ یہ حدیث لاکر امام بخاری نے حنفیہ کا رد کیا جو بد گمانی ناجوازی کی علت قرار دیتے ہیں۔ علامہ عینی نے کہا ہم بدگمانی کو تو علت ہی قرار نہیں دیتے پھر یہ استدلال بے کار ہے اور اگر مان لیں تب بھی حدیث سے بدگمانی منع ہے اور یہ گمان بدگمان نہیں ہے میں کہتا ہوں جب ایک مسلمان کو مرتے وقت جھوٹا سمجھا تو اس سے بڑھ کر اور کیا بدگمانی ہوگی۔ حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا ہے کہ مریض پر جب کسی کا قرض ہو تو اس کا اقرار کرنا چاہئے۔ ورنہ وہ خیانت کا مرتکب ہو گا اور جب اقرارکرنا واجب ہوا تو اس کا اقرار معتبر بھی ہوگا ورنہ اقرار کے واجب کرنے سے فائدہ ہی کیا ہے اور آیت سے یہ نکالا کہ قرض بھی دوسرے کی گویا امانت ہے خواہ وہ وارث ہو یا نہ ہو۔ پس وارث کے لئے اقرار صحیح ہوگا۔ عینی کا یہ اعتراض کہ قرض کو امانت نہیں کہہ سکتے اور آیت میں امانت کی ادائیگی کا حکم ہے‘ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ امانت سے یہاں لغوی امانت مراد ہے یعنی دوسرے کا حق نہ کہ شرعی امانت اور قرض لغوی امانت میں داخل ہے۔ اس آیت کا شان نزول اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے عثمان بن طلحہ شیی رحمہ اللہ سے کعبے کی کنجی لی اور اندر گئے۔ اس کنجی کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مانگا اس وقت یہ آیت اتری‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کنجی پھر شیی کو دے دی جو آج تک ان کے خاندان میں چلی آتی ہے۔ یہی وہ خاندان ہے جو قبل اسلام سے آج تک کعبہ شریف کی کنجی کا محافظ چلا آرہاہے۔ اسلامی دور میں بھی اسی خاندان کو اس خدمت پر بحال رکھا گیا اور آج سعودی حکومت کے دور میں بھی یہی خاندان ہے جو کعبہ شریف کی کنجی کا محافظ ہے۔ اگر امیر حکومت سعودی بھی کعبہ میں داخل ہو نا چاہیں تو اسی خاندان سے ان کو یہ کنجی حاصل کرنا ضروری ہے اور واپسی کے بعد واپس کر دینا بھی ضروری ہے۔ اس دور میں حجاز میں کتنے سیاسی انقلابات آئے مگر اس نظام میں کسی دور میں فرق نہیں آیا ( اللہ تعالیٰ اس نظام کو ہمیشہ قائم دائم رکھے آمین ) حدیث لا صدقۃ الا الخاس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الزکوٰۃ میں وصل کیا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ دین ( قرض ) کا ادا کرنا وصیت پر مقدم ہے‘ اس لئے کہ وصیت مثل صدقہ کے ہے اور جو شخص مدیون ( مقروض ) ہو وہ مالدار نہیں ہے ۔ ( تفسیر وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: وہ جب بات کر تا ہے تو جھوٹ بولتاہے، جب ا س کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتاہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے مطابق ترک خیانت واجب ہے کیونکہ خیانت کرنا تو منافق کی علامت ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اس بنا پر قرض مریض کے ذمے ہے وہ بھی گویا ایک امانت ہے، اس کا اقرار نہ کرنا خیانت کے مترادف ہے جو نفاق کی نشانی ہے۔ اس کا ادا کرنا مریض کی ذمے داری ہے۔ وہ اس صورت میں ادا ہو گا جب اس کا اقرار کیا جائے۔ جب اقرار کر لیا تو اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر اقرار کا کیا فائدہ، لہذا ادائے امانت اور ترک خیانت میں وارث اور غیر وارث کی تفریق ایجاد بندہ اور خود ساختہ ہے۔ (2) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مریض کا قرض کے متعلق اقرار صحیح ہے اور امانت کی ادائیگی، خواہ وارث کے لیے ہو یا غیر وارث کے لیے دونوں صورتوں میں اس کا اقرار معتبر ہے۔ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ انکار استحسان اور قیاس کی بنیاد پر ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
بیان کیا جاتا ہے کہ قاضی شریح، حضرت عمر بن عبدالعزیز، جناب طاوس، حضرت عطاء اور ابن اذینہ رحمۃ اللہ علیہ نے مریض کی طرف سے دین(قرض)کے اقرار کو جائز کہاہے۔ حسن بصرینے کہا: آدمی کا سب سے زیادہ لائق صدقہ وہ ہے جب دنیا میں اس کا آخری اورآخرت میں پہلا دن ہو۔ حضرت ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: جب مریض کسی وارث کوقرض سے بری قرار دے دے تو وہ بری ہوجائے گا۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ان کی بیوی فزاریہ کے مال پر جو دروازہ بند کردیاگیا ہے اسے مت کھولا جائے، یعنی گھر میں سب کچھ اسی کا ہے۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: جب موت کے وقت کسی نے اپنے غلام سے کہا کہ میں نے تجھے آزاد کردیا ہے تو جائز ہے۔ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ ے کہا: جب عورت نےموت کے وقت کہا: میرے شوہر نے مجھے مہر ادا کردیاہے اور میں نے اسے وصول کرلیا ہے تو جائز ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ مریض کا کسی وارث کے لیے اقرار جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے دوسرے وارثوں کو اس کے متعلق بدگمانی پیدا ہوسکتی ہے۔ پھر ا س گمان کو اچھا خیال کرکے یہ کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی مریض وارث کے لیے امانت، کسی سامان یامضاربت وغیرہ کا اقرار کرے تو جائزہے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "بدگمانی سے اجتناب کرو کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے۔ "نیز مسلمانوں کامال کسی طرح بھی حلال نہیں کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا: "منافق کی نشانی یہ ہے کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ "اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو امانت ادا کرو۔ "اس میں کسی وارث یا غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی نبی کریمﷺ سے روایت کی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن داؤد ابو الربیع نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے اسمٰعیل بن جعفر نے‘ انہوں نے کہا ہم سے نافع بن مالک بن ابی عامر ابو سہیل نے‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے، آپ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The signs of a hypocrite are three: Whenever he speaks he tells a lie; whenever he is entrusted he proves dishonest; whenever he promises he breaks his promise."