باب : اللہ تعالیٰ کے ( سورۃ نساء میں ) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: The explanantion of the Statement of Allah Taa'la: "... After payment of legacies that they may have bequeathed or debts...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قرض کو وصیت پر مقدم کر نے کا حکم دیا اور ( اس سورت میں ) یہ فرمانے کی اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ تو امانت ( قرض ) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آمی مالدار رہے اور ابن عباس ؓ نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آنحضرتﷺ نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔
2750.
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا فرمادیا۔ آخر کار آپ نے فرمایا: ’’اے حکیم! دنیا کایہ مال (دیکھنے میں ) خوشن اور (ذائقے میں) شیری ہے لیکن جو اس کو دل کی سخاوت اور سیر چشمی سے لے تو اسکے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو کوئی اسے طمع اور لالچ سے لے، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جو اسے کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لوں گا حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر فاروق ؓ انھیں وظیفہ دینے کے لیے طلب کرتے تو وہ اس کے لینے سے انکار کردیتے۔ حضرت عمر ؓ نے ان کی روش کے پیش نظر فرمایا: مسلمانو!تم گواہ رہو، میں انھیں وہ حق پیش کرتا ہوں جو اللہ نے مال فے میں ان کے لیے مقرر کیا ہے لیکن وہ لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ الغرض حضرت حکیم بن حزام ؓ نے نبی کریم ﷺ کے بعد پھر کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کی حتیٰ کہ فوت ہوگئے اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔ وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2650
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2750
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2750
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2750
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا آیت کریمہ پر دو عنوان قائم کیے ہیں۔ پہلے عنوان کا مقصد تھا کہ مریض کا قرض کے لیے اقرار کرنا مطلق طور پر صحیح ہے، خواہ وارث کے لیے ہو یا کسی اجنبی کے لیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وصیت اور قرض کو تقسیم میراث پر مقدم کیا ہے۔ پھر شرعی دلیل سے وصیت خارج ہو گئی اور قرض کا اقرار اپنے حال پر باقی رہا جس میں وارث اور اجنبی برابر ہیں۔ دوسرے عنوان کی غرض یہ ہے کہ اگرچہ وصیت قرض سے پہلے ذکر کی گئی ہے، تاہم ادائیگی کے اعتبار سے قرض مقدم ہے، چنانچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ میت کے ذمے قرض کی وصیت سے پہلے ادا کیا جائے، پھر وصیت پر عمل کیا جائے جبکہ وصیت ایک تہائی یا اس سے کم مقدار کی ہو، اس کے بعد ترکہ تقسیم کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کئی ایک شواہد کا ذکر کیا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کے نفاذ سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا جبکہ قرآن کریم میں قرض سے پہلے وصیت کا ذکر ہے۔ (جامع الترمذی،الوصایا،حدیث:2122) چونکہ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے صیغۂ تمریض سے بیان کی ہے، لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس حدیث پر عام اہل علم کا عمل ہے۔ ٭ آیت کریمہ میں امانت کے ادا کرنے کا حکم ہے۔ چونکہ قرض، قرض خواہ کی امانت ہے اور وصیت کسی امانت کی نہیں ہوتی، اس لیے قرض وصیت سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔ ٭ مریض جب وصیت کرے گا تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہو گا اور صدقہ اس وقت کیا جاتا ہے جب اس کا مال قرض وغیرہ سے فارغ ہو۔ مقروض تو محتاج ہے، غنی نہیں، اس بنا پر وہ صدقہ کیسے کر سکتا ہے، اس لیے اس کی وصیت نافذ نہیں ہو گی جب تک قرض کی ادائیگی نہ ہو۔ ٭ غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر وصیت نہیں کر سکتا کیونکہ غلام کی وصیت تو نفلی طور پر ہے اور مالک کا حق اس کے مال کے ساتھ لازمی اور حتمی طور پر ہے، غلام کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے آقا کے حق کو ختم کر دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واجب کی ادائیگی نفل پر مقدم ہے، قرض کی ادائیگی واجب ہے اور وصیت نفل، اس بنا پر قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہو گی۔ ٭ غلام کی نگرانی کا تقاضا ہے کہ جب تک مالک اجازت نہ دے غلام اس کے مال میں تصرف نہ کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واجب، نفل پر مقدم ہے کیونکہ غلام کا خرچ کرنا ایک نفل ہے اور اس کے آقا کا حق واجب ہے۔ قرآن کریم میں وصیت کو قرض کی ادائیگی پر مقدم کرنے کی کئی ایک وجوہات ہیں، مثلاً: (ا) وصیت بلا عوض ہوتی ہے اور قرض کسی چیز کے عوض ہوتا ہے، بلا عوض کسی چیز کا مال سے الگ کرنا نفس پر بہت گراں گزرتا ہے، اس لیے اسے مقدم کیا گیا کہ اسے بھی ادا کرنا چاہیے۔ (ب) وصیت ایک نفلی چیز ہے جبکہ قرض کی وصولی تو بزور بھی کی جا سکتی ہے، اس لیے وصیت کو مقدم کیا گیا ہے کہ اسے بھی ادا کرنا چاہیے اگرچہ اسے بزور وصول نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ قرض کی ادائیگی نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی اگرچہ قرآن کریم میں وصیت کا ذکر قرض کی ادائیگی سے پہلے ہے۔
اور منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قرض کو وصیت پر مقدم کر نے کا حکم دیا اور ( اس سورت میں ) یہ فرمانے کی اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ تو امانت ( قرض ) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آمی مالدار رہے اور ابن عباس ؓ نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آنحضرتﷺ نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دے دیا۔ میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر عطا فرمادیا۔ آخر کار آپ نے فرمایا: ’’اے حکیم! دنیا کایہ مال (دیکھنے میں ) خوشن اور (ذائقے میں) شیری ہے لیکن جو اس کو دل کی سخاوت اور سیر چشمی سے لے تو اسکے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو کوئی اسے طمع اور لالچ سے لے، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی۔ یہ اس شخص کی طرح ہے جو اسے کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حضرت حکیم ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے!میں آپ کے بعد کسی سے کچھ نہیں لوں گا حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ حضرت حکیم ؓ کو وظیفہ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے۔ پھر حضرت عمر فاروق ؓ انھیں وظیفہ دینے کے لیے طلب کرتے تو وہ اس کے لینے سے انکار کردیتے۔ حضرت عمر ؓ نے ان کی روش کے پیش نظر فرمایا: مسلمانو!تم گواہ رہو، میں انھیں وہ حق پیش کرتا ہوں جو اللہ نے مال فے میں ان کے لیے مقرر کیا ہے لیکن وہ لینے سے انکار کردیتے ہیں۔ الغرض حضرت حکیم بن حزام ؓ نے نبی کریم ﷺ کے بعد پھر کسی سے کوئی چیز قبول نہیں کی حتیٰ کہ فوت ہوگئے اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام ؓ کو عطیہ قبول کرنے میں عدم رغبت کی طرف توجہ دلائی اور عطیہ لینے والے کے ہاتھ کو نچلا ہاتھ بتایا۔ وصیت بھی صدقے کی طرح ہے، اس لیے اسے قبول کرنے والے کا ہاتھ ید سفلی ہو گا جبکہ قرض کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس میں وصول کرنے والے کا ہاتھ نچلا نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی دی ہوئی رقم وصول کر رہا ہے، اس لیے اسے وصول کرنے کے لیے زبردستی کی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے قرض، عطیے اور صدقے سے قوی ہے، لہذا اسے مقدم کرنا چاہیے۔ (2) حضرت عمر ؓ نے ان کی حق دہی کے متعلق بہت کوشش کی اور قرض کی طرح انہیں اس کا حق دار قرار دیا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جب قرض متعین ہو تو نفلی صدقہ کرنے سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
بیان کیاجاتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے وصیت سے پہلے قرض ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کرو۔ "اس بنا پر امانت کی ادائیگی نفلی وصیت سے زیادہ حق رکھتی ہے۔نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "صدقہ وہی کرے جو مالدار ہو۔ "حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر وصیت نہ کرے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام اوزاعی نے خبردی‘ انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر سے کہ حکیم بن حزام (مشہور صحابی) نے بیان کیا میں نے آنحضرت ﷺ سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیاکا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑا کر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہوگی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کرکے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ ﷺ کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لینے کا مرنے تک پھر (حکیم کا یہ حال رہا) کہ ابو بکر صدیق ؓ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لئے ان کو بلاتے‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے۔ پھر حضرت عمر ؓ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لئے لیکن انہوں نے انکار کیا۔ حضرت عمر ؓ کہنے لگے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا۔ غرض حکیم نے آنحضرت ﷺ کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی (اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا) یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair (RA): Hakim bin Hizam said, "I asked Allah's Apostle (ﷺ) for something, and he gave me, and I asked him again and he gave me and said, 'O Hakim! This wealth is green and sweet (i.e. as tempting as fruits), and whoever takes it with The upper (i.e. giving) hand is better than the lower (i.e. taking) hand." Hakim added, "I said, O Allah's Apostle (ﷺ) ! By Him Who has sent you with the Truth I will never demand anything from anybody after you till I die." Afterwards Abu Bakr (RA) used to call Hakim to give him something but he refused to accept anything from him. Then 'Umar called him to give him (something) but he refused. Then 'Umar said, "O Muslims! I offered to him (i.e. Hakim) his share which Allah has ordained for him from this booty and he refuses to take it." Thus Hakim did not ask anybody for anything after the Prophet, till he died--may Allah bestow His mercy upon him.