باب : کیا وقف کرنے والا اپنے وقف سے خود بھی وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: Can the founder of an endowment have the benefit of his endowment?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمر ؓ نے شرط لگائی تھی ( اپنے وقف کے لئے ) کہ جو شخص اس کا متولی ہو اس کے لئے اس وقف میں سے کھالینے سے کوئی حرج نہ ہوگا۔ ( دستور کے مطابق ) واقف خود بھی وقف کا مہتمم ہو سکتا ہے اور دوسرا شخص بھی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے اونٹ یا کوئی اور چیز اللہ کے راستے میں وقف کی تو جس طرح دوسرے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں خود وقف کرنے والا بھی اٹھا سکتا ہے اگر چہ ( وقف کرتے وقت ) اس کی شرط نہ لگائی ہو۔ تشریح : واقف اپنے وقف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جب اس چیز کو خود اپنے اوپر اور نیز دوسروں پر وقف کردیا ہویا وقف میں ایسی شرط کرلی ہو یا اس میں سے ایک حصہ اپنے لئے خاص کرلیا ہو یا متولی کو کچھ دلایا ہو اور خود ہی متولی ہو۔ قسطلانی نے کہاشافعیہ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ اپنی ذات پر وقف کرنا باطل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر کتاب الشروط میں موصولاً گزرچکا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے یہ نکالا کہ جب وقف کے متولی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھانے کی اجازت دی تو خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں سے کھانا یا کچھ فائدہ لینا درست ہوگا۔ اس لئے کہ کبھی وقف کرنے والا خود اس جائداد کا متولی ہوتا ہے ۔ آخری مضمون میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی چیز فقیروں پر وقف کی اور وقف کرنے والا فقیر نہیں ہے تواس سے فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ البتہ اگر وہ فقیر ہوجائے یا اس کی اولاد میں سے کوئی فقیرہو جائے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ یہی مختار ہے۔
2755.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا قربانی کا اونٹ ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے اسے کہا: ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ !یہ تو قربانی کے لیے وقف ہے۔ آپ نے دوسری یاتیسری مرتبہ فرمایا: ’’تیرے لیے خرابی ہو اس پر سوار ہوجا۔‘‘
تشریح:
(1) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ وقف کرنے والا اپنی وقف کی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اگرچہ اس نے اپنے لیے فائدہ اٹھانے کی شرط نہ کی ہو۔ حدیث میں اونٹ کا ذکر ہے، اس پر مکان وغیرہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی مکان وقف کرے تو اس کے کسی حصے میں خود بھی رہائش رکھی جا سکتی ہے۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر بوقت ضرورت سواری کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ دودھ دینے والا جانور ہو تو اس کا دودھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قربانی کے لیے متعین کرنے کے بعد اسے بالکل بے کار نہیں بنا دینا چاہیے جیسا کہ مشرکین اس طرح کے جانوروں کو بالکل آزاد کر دیتے تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کے نزدیک وقف مطلق اور صدقۂ مطلق میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ وقف مشروط کے متعلق امام بخاری ؒ نے آئندہ مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے، وہاں تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو ہو گی۔ (صحیح البخاري، الوقف، باب:33)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2655
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2755
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2755
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2755
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2737) دراصل وقف کی دو قسمیں ہیں: ٭ وقف مطلق، جس میں خود فائدہ اٹھانے کی شرط نہ کی جائے۔ ٭ وقف مشروط، جس میں وقف کرنے والا خود فائدہ اٹھانے کی شرط کر لے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے گزشتہ حدیث عمر پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا تھا: (باب الشروط في الوقف) "وقف میں شرط لگانا۔" عام فقہاء کا کہنا ہے کہ وقف مطلق میں وقف کرنے والے کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے آئندہ کے لیے وقف کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس آڑ میں اس کی اولاد اس کے متعلق اپنی ملکیت کا دعویٰ کر دے، اس لیے وقف کرنے والے کو اس سے الگ تھلگ رہنا چاہیے، جبکہ وقف مشروط میں اسے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ وقف کرنے والا شرط کرے یا نہ کرے اس سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر وقف محتاجوں اور فقیروں کے لیے ہے اور وقف کرنے والا خود محتاج یا فقیر نہیں ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا صحیح نہیں، ہاں اگر خود فقیر ہو جائے یا اس کی اولاد میں سے کوئی تنگ دست ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
اور حضرت عمر ؓ نے شرط لگائی تھی ( اپنے وقف کے لئے ) کہ جو شخص اس کا متولی ہو اس کے لئے اس وقف میں سے کھالینے سے کوئی حرج نہ ہوگا۔ ( دستور کے مطابق ) واقف خود بھی وقف کا مہتمم ہو سکتا ہے اور دوسرا شخص بھی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے اونٹ یا کوئی اور چیز اللہ کے راستے میں وقف کی تو جس طرح دوسرے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں خود وقف کرنے والا بھی اٹھا سکتا ہے اگر چہ ( وقف کرتے وقت ) اس کی شرط نہ لگائی ہو۔ تشریح : واقف اپنے وقف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جب اس چیز کو خود اپنے اوپر اور نیز دوسروں پر وقف کردیا ہویا وقف میں ایسی شرط کرلی ہو یا اس میں سے ایک حصہ اپنے لئے خاص کرلیا ہو یا متولی کو کچھ دلایا ہو اور خود ہی متولی ہو۔ قسطلانی نے کہاشافعیہ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ اپنی ذات پر وقف کرنا باطل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر کتاب الشروط میں موصولاً گزرچکا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے یہ نکالا کہ جب وقف کے متولی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کھانے کی اجازت دی تو خود وقف کرنے والے کو بھی اس میں سے کھانا یا کچھ فائدہ لینا درست ہوگا۔ اس لئے کہ کبھی وقف کرنے والا خود اس جائداد کا متولی ہوتا ہے ۔ آخری مضمون میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی چیز فقیروں پر وقف کی اور وقف کرنے والا فقیر نہیں ہے تواس سے فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ البتہ اگر وہ فقیر ہوجائے یا اس کی اولاد میں سے کوئی فقیرہو جائے تو فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ یہی مختار ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا قربانی کا اونٹ ہانکے جارہا ہے۔ آپ نے اسے کہا: ’’اس پر سوار ہوجا۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ !یہ تو قربانی کے لیے وقف ہے۔ آپ نے دوسری یاتیسری مرتبہ فرمایا: ’’تیرے لیے خرابی ہو اس پر سوار ہوجا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ وقف کرنے والا اپنی وقف کی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اگرچہ اس نے اپنے لیے فائدہ اٹھانے کی شرط نہ کی ہو۔ حدیث میں اونٹ کا ذکر ہے، اس پر مکان وغیرہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی مکان وقف کرے تو اس کے کسی حصے میں خود بھی رہائش رکھی جا سکتی ہے۔ (2) یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور پر بوقت ضرورت سواری کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ دودھ دینے والا جانور ہو تو اس کا دودھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قربانی کے لیے متعین کرنے کے بعد اسے بالکل بے کار نہیں بنا دینا چاہیے جیسا کہ مشرکین اس طرح کے جانوروں کو بالکل آزاد کر دیتے تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کے نزدیک وقف مطلق اور صدقۂ مطلق میں کوئی فرق نہیں۔ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔ وقف مشروط کے متعلق امام بخاری ؒ نے آئندہ مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے، وہاں تفصیل سے اس موضوع پر گفتگو ہو گی۔ (صحیح البخاري، الوقف، باب:33)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے اپنے وقف کے متعلق یہ شرط لگائی تھی کہ وقف کے متولی پر اس سےکھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ وقف کے لیے وقف کنندہ اور کبھی دوسرا بھی متولی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی نے اونٹ یاکوئی اور چیز اللہ کے لیے وقف کی تو جس طرح دوسرے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اسے بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے اگرچہ وقف کرتے وقت اس کی شرط نہ لگائی ہو۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسمٰعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابو الزناد نے، ان نے اعرج سے اور ان ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ایک صاحب قربانی کا اونٹ ہانکے لئے جا رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہو جا لیکن انہوں نے معذرت کی کہ یا رسول اللہ! یہ تو قربانی کا ہے۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ سوار بھی ہو جا۔ افسوس! یہ کلمہ آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ وقفی چیز سے خود وقف کرنے والا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے ، جانور پر مکان کو بھی قیاس کر سکتے ہیں ۔ اگر کوئی مکان وقف کرے تو اس میں خود بھی رہ سکتا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ قربانی کے جانور پر بوقت ضرورت سواری کی جا سکتی ہے ، اگر وہ دودھ دینے والا جانور ہے تو اس کا دودھ بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے و۔ وہ جانور برائے قربانی متعین کرنے کے بعد عضو معطل نہیں بن جاتا ۔ عام طور پر مشرکین اپنے شرکیہ افعال کے لئے موسوم کردہ جانوروں کو بالکل آزاد سمجھنے لگ جاتے ہیں جو ان کی نادانی کی دلیل ہے ، غیر اللہ کے ناموں پر اس طرح جانور چھوڑنا شرک ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) saw a man driving a Badana and said to him, "Ride on it," and on the second or the third time he added, "Woe to you."