باب : اگر صدقہ کے لئے کسی کو وکیل کرے اور وکیل اس کا صدقہ پھیردے
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: Whoever gave something to his representative to give in charity and then the latter returned it to him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2758.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’تم اس وقت تک ہرگز نیکی نہیں حاصل کرسکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ توحضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ’’تم اس وقت تک ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزکو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ میری جائیداد میں مجھے بیرحاء کاباغ سب سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ ایسا باغ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ تشریف لےجاتے، وہاں سائے میں بیٹھتے اور اس کے چشموں کا پانی نوش فرماتے تھے۔ یہ باغ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے لیے ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور ذخیرہ آخرت کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ !آپ اسے وہاں خرچ کریں جہاں آپ کو اللہ تعالیٰ بتائے۔ (آپ اسے قبول فرمائیں اور جہاں مناسب خیال کریں اسے مصرف میں لائیں۔ )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’واہ، واہ!اے ابو طلحہ تجھے مبارک ہو۔ یہ مال تو بہت مفید اور نفع بخش ہے۔ ہم اس کو تم سے قبول کرکے پھر تمہارے ہی حوالے کرتے ہیں۔ آپ اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں خرچ کریں۔‘‘ چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے اسے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیا۔ ان قریبی رشتہ داروں میں سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت حسان بن ثابت ؓ تھے۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہاتھ بیچ دیا۔ اسے کہا گیا: تم حضرت ابو طلحہ ؓ کا دیا ہوا صدقہ فروخت کررہے ہو؟ توا نھوں نےفرمایا: میں کھجور کا ایک صاع دراہم کے ایک صاع کے عوض کیوں نہ فروخت کروں؟ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ وہ باغ بنو حدیلہ کے محل کی جگہ واقع تھا جسے امیر معاویہ ؓ نے تعمیر کرایا تھا۔
تشریح:
(1) حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنا وکیل بنا کر باغ ان کے حوالے کر دیا۔ آپ نے اسے قبول فرما کر پھر انہیں واپس کر دیا اور فرمایا: ’’تم اسے اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کر دو۔‘‘ (2) اس روایت میں ہے کہ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ سیدنا معاویہ ؓ کو بیچ ڈالا تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب تو کھجور چاندی کے عوض فروخت ہو رہی ہے، یعنی ایسی گراں قیمت پھر کب ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے ایک لاکھ درہم میں ان کا حصہ خریدا تھا۔ چونکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے یہ باغ معین لوگوں کو وقف کیا تھا، لہذا ان کے لیے اپنا حصہ فروخت کرنا جائز تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ اگر انہیں ضرورت ہو تو فروخت کر سکتے ہیں، بصورت دیگر وقف کو فروخت کرنا صحیح نہیں کیونکہ وقف میں تملیک نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2658
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2758
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2758
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2758
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’تم اس وقت تک ہرگز نیکی نہیں حاصل کرسکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ توحضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ’’تم اس وقت تک ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزکو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔‘‘ میری جائیداد میں مجھے بیرحاء کاباغ سب سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ ایسا باغ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ تشریف لےجاتے، وہاں سائے میں بیٹھتے اور اس کے چشموں کا پانی نوش فرماتے تھے۔ یہ باغ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے لیے ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور ذخیرہ آخرت کی امید رکھتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ !آپ اسے وہاں خرچ کریں جہاں آپ کو اللہ تعالیٰ بتائے۔ (آپ اسے قبول فرمائیں اور جہاں مناسب خیال کریں اسے مصرف میں لائیں۔ )رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’واہ، واہ!اے ابو طلحہ تجھے مبارک ہو۔ یہ مال تو بہت مفید اور نفع بخش ہے۔ ہم اس کو تم سے قبول کرکے پھر تمہارے ہی حوالے کرتے ہیں۔ آپ اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں خرچ کریں۔‘‘ چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے اسے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیا۔ ان قریبی رشتہ داروں میں سے حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت حسان بن ثابت ؓ تھے۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہاتھ بیچ دیا۔ اسے کہا گیا: تم حضرت ابو طلحہ ؓ کا دیا ہوا صدقہ فروخت کررہے ہو؟ توا نھوں نےفرمایا: میں کھجور کا ایک صاع دراہم کے ایک صاع کے عوض کیوں نہ فروخت کروں؟ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ وہ باغ بنو حدیلہ کے محل کی جگہ واقع تھا جسے امیر معاویہ ؓ نے تعمیر کرایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنا وکیل بنا کر باغ ان کے حوالے کر دیا۔ آپ نے اسے قبول فرما کر پھر انہیں واپس کر دیا اور فرمایا: ’’تم اسے اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کر دو۔‘‘ (2) اس روایت میں ہے کہ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ سیدنا معاویہ ؓ کو بیچ ڈالا تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب تو کھجور چاندی کے عوض فروخت ہو رہی ہے، یعنی ایسی گراں قیمت پھر کب ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے ایک لاکھ درہم میں ان کا حصہ خریدا تھا۔ چونکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے یہ باغ معین لوگوں کو وقف کیا تھا، لہذا ان کے لیے اپنا حصہ فروخت کرنا جائز تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ اگر انہیں ضرورت ہو تو فروخت کر سکتے ہیں، بصورت دیگر وقف کو فروخت کرنا صحیح نہیں کیونکہ وقف میں تملیک نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا کہ مجھے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے خبر دی‘ انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے (امام بخاری نے کہا کہ) میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت انہوں نے انس ؓ سے کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا (جب سورۃ آل عمران کی) یہ آیت نازل ہوئی کہ ”تم نیکی ہرگز نہیں پاسکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے۔“ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے کہ ”تم نیکی ہرگز نہیں پاسکتے جب تک اس مال میں سے خرچ نہ کرو جو تم کو زیادہ پسند ہے۔‘‘ اور میرے اموال میں سب سے پسند مجھے بیرحاءہے۔ بیان کیاکہ بیرحاء ایک باغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ بھی اس میں تشریف لے جایا کرتے‘ اس کے سائے میں بیٹھتے اوراس کا پانی پیتے (ابو طلحہ نے کہا کہ) اس لئے وہ اللہ عزوجل کی راہ میں صدقہ اور رسول اللہ ﷺ کے لئے ہے۔ میں اس کی نیکی اور اس کے ذخیرئہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ پس یارسول اللہ! جس طرح اللہ آپ کو بتائے اسے خرچ کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا واہ واہ شاباش ابو طلحہ یہ تو بڑا نفع بخش مال ہے‘ ہم تم سے اسے قبول کرکے پھر تمہارے ہی حوالے کردیتے ہیں اور اب تم اسے اپنے عزیزوں کو دے دو۔ چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ اپنے عزیزوں کو دے دیا۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ جن لوگوں کو باغ آپ نے دیا تھا ان میں ابی اور حسان ؓ تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ حسان ؓ نے اپنا حصہ معاویہ ؓ کو بیچ دیا تو کسی نے ان سے کہا کہ کیا آپ ابو طلحہ ؓ کا دیا ہوا مال بیچ رہے ہو؟ حسان ؓ نے جواب دیا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں۔ انس ؓ نے کہا یہ باغ بنی حدیلہ کے محلّہ کے قریب تھا جسے معاویہ ؓ نے (بطور قلعہ کے) تعمیر کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ ابو طلحہ نے آنحضرت ﷺ کو وکیل کیا تھا‘ آپ ﷺ نے ان کا صدقہ قبول فرما کر پھر ان ہی کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ اسے اپنے اقرباءمیں تقسیم کردو۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ حضرت معاویہ ؓ کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا جب لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں کھجور کا ایک صاع روپیوں کے ایک صاع کے بدل کیوں نہ بیچوں، یعنی ایسی قیمت پھر کہا ں ملے گی گویا کھجور چاندی کے ہم وزن بک رہی ہے۔ کہتے ہیں صرف حسانؓ کا حصہ اس باغ میں حضرت معاویہ ؓنے ایک لاکھ درہم میں خریدا۔ چونکہ ابو طلحہ نے یہ باغ معین لوگو ں پر وقف کیا تھا لہذا ان کو اپنا حصہ بیچنا درست ہوا۔ بعضوں نے کہا ابو طلحہ ؓنے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگادی تھی کہ اگران کو حاجت ہو تو بیچ سکتے ہیں ورنہ مال وقف کی بیع درست نہیں قصر بن حدیلہ کی تفصیل حافظ صاحب یوں فرماتے ہیں۔ وأما قصر بني حدیلة وھو بالمھملة مصغر ووھم من قاله بالجیم فنسب إلیھم القصر بسبب المجاورة و إلا فالذي بناہ ھو معاویة بن أبي سفیان و بنو حدیلة بالمھملة مصغر بطن من الأنصار وھم بنو معاویة بن عمرو بن مالك النجار وکانوا بتلك البقعة فعرفت بھم فلما اشتری معاویة حصة حسان بنی فیھا هذا القصر فعرفت بقصر بني حدیلة ذکر ذلك عمرو بن شیبة وغیرہ في أخبار المدینة ملکھم الحدیقة المذکورة ولم یفقھا علیھم اذلو وقفھا ما ساغ لحسان أن یبیعھا ووقع في أخبار المدینة لمحمد ابن الحسن المخزومي من طریق أبي بکر بن حزم أن ثمن حصة حسان مائة ألف درھم قبضھا من معاویة بن أبي سفیان(خلاصہ فتح الباری) اور لیکن قصر بنی حدیلہ حائے مہملہ کے ساتھ اور جس نے اسے جیم کے ساتھ نقل کیا یہ اس کا وہم ہے۔ یہ پڑوس کی وجہ سے بنو حدیلہ کی طرف منسوب ہوگیا تھا ورنہ اس کے بنانے والے حضرت معاویہ بن ابی سفیا ن ہیں اور بنو حدیلہ انصار کا ایک قبیلہ ہے۔ یہ بنو معاویہ بن عمر و بن مالک نجار ہیں جو یہاں رہا کرتے تھے پس ان ہی سے یہ منسوب ہوگیا۔ پس جب حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حسان ؓ والا حصہ خرید لیا تو وہاں یہ قلعہ بنایا جو قصر بنو حدیلہ کے نام سے موسوم ہوگیا۔ اسے عمرو بن شیبہ وغیرہ نے اخبار المدینہ میں ذکر کیا ہے‘ حضرت حسان نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کو بیچ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر اس کو ان پر وقف کرتے تو اسے حسان فروخت نہیں کرسکتے تھے اور اخبار مدینہ میں ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حسان ؓ کو ان کے حصہ کی قیمت ایک لاکھ درھم ادا کی تھی۔ علامہ قسطلانی ؓفرماتے ہیں: وأجاب آخر بأن أبا طلحة حین وقفھا شرط جواز بیعھم عند الاحتیاج فإن الشرط بھذا الشرط قال بعضھم لجوازہ واللہ أعلمیعنی حضرت ابو طلحہ ؓ نے جب اسے وقف کیا تو حاجت کے وقت ان لوگوں کو بیچنے کی اجازت دے دی تھی اور اس شرط کے ساتھ وقف جائز ہے۔ لفظ حدیلہ کو بعض نے جیم کے ساتھ جدیلہ نقل کیا ہے۔ بعض نے کہا کہ وہ صحیح حاء مضمون کے ساتھ حدیلہ ہے واللّٰہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
When the Holy Verse: 'By no means shall you attain Al-Birr (piety, righteousness, it means here Allah's Reward i.e., Paradise), unless you spend of that which you love..', (V 3:92) was revealed, Abu Talha went to Allah's Messenger (ﷺ) and said, "O Allah's Messenger ! Allah, the Blessed, the Superior stated in His book: 'By no means shall you attain Birr, unless you spend of that which you love....' (V 3:92) and the most beloved property to me is Bairuha' (which was a garden where Allah's Messenger (ﷺ) used to go to sit in its shade and drink from its water). I gave it to the Allah and His Messenger (ﷺ) hoping for Allah's Reward in the Hereafter. So, Ao Allah's Messenger ! Use it as Allah orders you to use it." Allah's Messenger (ﷺ) said, "Bravo! O Abu Talha, it is fruitful property. We have accepted it from you and now we return it to you. Distribute it amongst you relatives." So, Abu Talha distributed it amongst his relatives, amongst whom were Ubai and Hassan. When Hassan sold his share of that garden to Mu'awiyya, he was asked, "How do you see Abu Talha's Sadaqa?" He replied, "Who should not I sell a Sa' of date for Sa' of money ?" The garden was situated on the courtyard of the palace of Bani Jadila built by Mu'awiya.