باب : کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لئے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی۔۔۔
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: If somebody keeps an endowment, or stipulates that he should benefit by it as the other Muslims do)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لئے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کرلی تو یہ بھی درست ہے اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک گھر وقف کیا تھا ( مدینہ میں ) جب کبھی مدینہ آتے ‘ اس گھر میں قیام کیا کرتے تھے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھروں کو وقف کردیا تھا اور اپنی ایک مطلقہ لڑکی سے فرمایا تھا کہ وہ اس میں قیام کریں لیکن اس گھر کو نقصان نہ پہنچائیں اور نہ اس میں کوئی دوسرا نقصان کرے اور جو خاوند والی بیٹی ہوتی اس کو وہاں رہنے کا حق نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ( وقف کردہ ) گھر میں رہنے کا حصہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا۔
2778.
حضرت ابو عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ کا جب محاصرہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانک کر ان (باغیوں)سے فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور یہ قسم صرف نبی ﷺ کے اصحاب کو دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ’’جس نے بئررومہ جاری کیا اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ تومیں نے اسے کھود کر وقف کیا تھا؟کیا تم نہیں جانتے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’جو کوئی غزوہ تبوک کے لیے لشکر تیار کرے اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ تومیں نے لشکر تیار کیا تھا؟ تولوگوں نے حضرت عثمان ؓ کےکلام کی تصدیق کی۔ حضرت عمرفاروق ؓ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ جو اس کامتولی ہے وہ اس سے کھاپی سکتا ہے۔ کبھی متولی خود وقف کنندہ ہوتا ہےاور کبھی کوئی دوسرا اس کا اہتمام کرتا ہے تو ہر ایک کے لیے (کھانے پینے کی) گنجائش ہے۔
تشریح:
(1) اس عنوان اور پیش کردہ آثار و احادیث سے دو مسائل کو ثابت کرنا مقصود ہے: ٭ وقف کرنے والا اپنے وقف سے دوسروں کی طرح خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان ؓ سے مروی روایت میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جو رومہ کا کنواں خرید لے اور دوسرے مسلمانوں کی طرح اپنا ڈول بھی اس میں ڈالے، اسے جنت میں اس سے بھی عمدہ کنواں ملے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3703) ٭ وقف کرنے والا وقف کرتے وقت اپنے لیے کوئی شرط لگا لے تو یہ بھی جائز ہے، مثلاً: کسی نے ایک گھر وقف کیا اور اس کے ایک کمرے میں خود رہنے کی شرط کر لی تو جائز ہے۔ بہرحال اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وقف کرنے والا اگر وقف چیز کے بارے میں یہ شرط کر لے کہ وہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھائے گا تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔ ان احادیث و آثار سے یہ دونوں باتیں صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہیں۔ (فتح الباري:499/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2678
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2778
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2778
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2778
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے موصولاً بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنا ایک گھر مدینہ طیبہ میں وقف کیا تھا۔ جب وہ حج کے لیے جاتے تو راستے میں مدینے والے اس گھر میں قیام کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:6/161) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام دارمی رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (مسند الدارمی:2/319،حدیث:3300) اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن سعد نے طبقات میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد:4/162)
کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لئے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کرلی تو یہ بھی درست ہے اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک گھر وقف کیا تھا ( مدینہ میں ) جب کبھی مدینہ آتے ‘ اس گھر میں قیام کیا کرتے تھے اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھروں کو وقف کردیا تھا اور اپنی ایک مطلقہ لڑکی سے فرمایا تھا کہ وہ اس میں قیام کریں لیکن اس گھر کو نقصان نہ پہنچائیں اور نہ اس میں کوئی دوسرا نقصان کرے اور جو خاوند والی بیٹی ہوتی اس کو وہاں رہنے کا حق نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ( وقف کردہ ) گھر میں رہنے کا حصہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ کا جب محاصرہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانک کر ان (باغیوں)سے فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں اور یہ قسم صرف نبی ﷺ کے اصحاب کو دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ’’جس نے بئررومہ جاری کیا اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ تومیں نے اسے کھود کر وقف کیا تھا؟کیا تم نہیں جانتے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’جو کوئی غزوہ تبوک کے لیے لشکر تیار کرے اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ تومیں نے لشکر تیار کیا تھا؟ تولوگوں نے حضرت عثمان ؓ کےکلام کی تصدیق کی۔ حضرت عمرفاروق ؓ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ جو اس کامتولی ہے وہ اس سے کھاپی سکتا ہے۔ کبھی متولی خود وقف کنندہ ہوتا ہےاور کبھی کوئی دوسرا اس کا اہتمام کرتا ہے تو ہر ایک کے لیے (کھانے پینے کی) گنجائش ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان اور پیش کردہ آثار و احادیث سے دو مسائل کو ثابت کرنا مقصود ہے: ٭ وقف کرنے والا اپنے وقف سے دوسروں کی طرح خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان ؓ سے مروی روایت میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کون ہے جو رومہ کا کنواں خرید لے اور دوسرے مسلمانوں کی طرح اپنا ڈول بھی اس میں ڈالے، اسے جنت میں اس سے بھی عمدہ کنواں ملے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3703) ٭ وقف کرنے والا وقف کرتے وقت اپنے لیے کوئی شرط لگا لے تو یہ بھی جائز ہے، مثلاً: کسی نے ایک گھر وقف کیا اور اس کے ایک کمرے میں خود رہنے کی شرط کر لی تو جائز ہے۔ بہرحال اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وقف کرنے والا اگر وقف چیز کے بارے میں یہ شرط کر لے کہ وہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھائے گا تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔ ان احادیث و آثار سے یہ دونوں باتیں صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہیں۔ (فتح الباري:499/5)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے مدینہ طیبہ میں ایک مکان وقف کیا، پھر وہ جب کبھی یہاں آتے تو اس گھرمیں قیام کرتے تھے۔حضرت زبیر ؓ نے اپنا گھر وقف کیا تھا اور اپنی ایک مطلقہ بیٹی سے فرمایا تھا کہ وہ اس گھر میں قیام کرے لیکن اس گھر کو نقصان نہ پہنچائے اور نہ اس میں کوئی دوسرا نقصان کرے۔ اگر وہ نکاح کر لینے کے باعث مکان سے بےنیازہوجائے تو اس کاوہاں کوئی حق نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقف کردہ گھر میں رہنے کا حصہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
عبدان نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی’ انہیں شعبہ نے‘ انہیں ابو اسحاق نے‘ انہیں ابو عبدالرحمٰن نے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ محاصرے میں لئے گئے تو (اپنے گھر کے) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم ﷺ کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لئے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت (غزوئہ تبوک پر جانے والے لشکر) کو جو شخص سازوسامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگر اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہو سکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہو سکتے ہیں اور ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی کسی نے اپنے وقف سے خود بھی فائدہ اٹھانے کی شرط لگائی تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ابن بطال نے کہا کہ اس مسئلے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ اگر کسی نے کوئی چیز وقف کرتے ہوئے اس کے منافع سے خود یا اپنے رشتہ داروں کے نفع ( اٹھانے ) کی بھی شرط لگائی تو جائز ہے مثلاً کسی نے کوئی کنواں وقف کیا اور شرط لگالی کہ عام مسلمانوں کی طرح میں بھی اس میں سے پانی پیا کروں گا تو وہ پانی بھی لے سکتا ہے اور اس کی یہ شرط جائز ہوگی۔ حضرت زبیر بن عوام کے اثر کو دارمی نے اپنی مسند میں وصل کیا ہے۔ آپ خاوند والی بیٹی کو اس میں رہنے کی اس لئے اجازت نہ دیتے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں رہ سکتی ہے یہ اثر ترجمہ باب سے اس طرح مطابق ہوتا ہے کہ کوئی بیٹی ان کی کنواری بھی ہوگی اور صحبت سے پہلے اس کو طلاق دی گئی ہوگی تو اس کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے اس کا رہنا گویا خود باپ کا وہاں رہنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا ہے‘ یہ وہ گھر تھا جس کو عمر ؓ وقف کر گئے تھے تو اثر ترجمہ باب کے مطابق ہوگیا۔ عبدان امام بخاری ؒ کے شیخ تھے تو یہ تعلیق نہ ہوگی اور دار قطنی اور اسماعیل نے اس کو وصل بھی کیا ہے۔ دوسری روایتوں میں یوں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے یہ کنواں خرید کر کے وقف کیا تھا‘ کھدوانا مذکور نہیں ہے لیکن شاید حضرت عثمان ؓ نے اس کو کچھ وسیع کرنے کے لئے کھدوایا بھی ہو۔ یہ روایت لاکر امام بخاری ؒ نے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو ترمذی نے نکالا۔ اس میں یوں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی رومہ کا کنواں خرید لے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنا ڈول بھی اس میں ڈالے اس کو بہشت میں اس بھی عمدہ کنواں ملے گا۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے یہ کنواں بیس ہزاریاپچیس ہزار میں خریدا تھا۔ مذکور جیش عسرۃ یعنی تنگی کا لشکر جس سے مراد وہ لشکر ہے جو جنگ تبوک میں آپ ﷺ کے ساتھ گیا تھا‘ اس جنگ کا سامان مسلمانوں کے پاس بالکل نہ تھا۔ حضرت عثمان ؓ نے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد پر سب سامان اپنی ذات سے فراہم کردیا جس پر آنحضرت ﷺ نے بہت ہی زیادہ اظہار مسرت فرماتے ہوئے حضرت عثمان ؓ کے لئے زندہ جنتی ہونے کی بشارت پیش فرمائی۔ حضرت عثمان ؓ نے جب اپنی آزمائش کے دنوں میں صحابہ کرام کو اس طرح مخاطب فرمایا جو اثر میں مذکور ہے تو بیشتر صحابہ نے آ پ کی تصدیق کی اور گواہی دی جن میں حضرت علی، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص ؓ پیش پیش تھے۔ اس حدیث کے ذیل میں حضرت عثمان ؓکے مناقب سے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے کئی ایک احادیث کو نقل کیا ہے الاحتیاج إلی ذلك لدفع مضرة أو تحصل منفعة وإنما یکرہ ذلك عندالمفاخرة والکاثرة والعجب ( فتح ) یعنی اس سے اس امر کا جواز ثابت ہوا کہ کسی نقصان کو دفع کرنے یا کوئی نفع حاصل کرنے کے لئے آدمی خود اپنے مناقب بیان کر سکتا ہے، لیکن فخر اور خود پسندی کے طور پر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
When 'Uthman (ra) was circled (by the rebels), he looked upon them from above and said, "Ias you by Allah, I ask nobody but the Companions of the Prophet (ﷺ), dont you know that Allah's Messenger (ﷺ) said, 'Whoever will (buy and) dig the well of Ruma will be granted Paradise,' and I (bought and) dug it? Don't you know that he said. 'Whoever equip the army of 'Usra (i.e., Tabuk's Ghazwa) will be granted Paradise,' and I equipped it ?" They attested whatever he said. When 'Umar founded his endowment he said, "Its administrator can eat from it." The management of the endowment can be taken over by the founder himself or any other person, for both cases are permissible.