قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ، إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوْتُ حِينَ الوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ، أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ ﴾ الي قوله ﴿ وَاللَّهُ لاَ يَهْدِي القَوْمَ الفَاسِقِينَ﴾)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: {الأَوْلَيَانِ} [المائدة: 107] وَاحِدُهُمَا أَوْلَى وَمِنْهُ أَوْلَى بِهِ، عُثِرَ: أُظْهِرَ {أَعْثَرْنَا} [الكهف: 21] أَظْهَرْنَا

2780 .   وَقَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي القَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ، فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ، فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، «فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم»، ثُمَّ وُجِدَ الجَامُ بِمَكَّةَ، فَقَالُوا: ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِيمٍ وَعَدِيٍّ، فَقَامَ رَجُلاَنِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، وَإِنَّ الجَامَ لِصَاحِبِهِمْ، قَالَ: وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوْتُ} [المائدة: 106]

صحیح بخاری:

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان

 

تمہید کتاب  (

باب: ارشاد باری تعالیٰ: ’’مسلمانو! جب تم میں سے کوئی مرنے لگے تو وصیت کے وقت تم میں سے یا تمہارے غیروں سے دو عادل گواہ ہونے چاہییں...اور اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ کا بیان

)
 

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

2780.   حضرت ابن عباس  ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنوسہم کا ایک شخص، تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ باہر گیا تو وہ سہمی ایسی زمین میں فوت ہوا جہاں کوئی مسلمان نہیں تھا۔ جب تمیم داری اور عدی اس کا ترکہ لائے تو اس میں سے ایک چاندی کا جام غائب تھا جس پر سونے کے نقش تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے حلف لیا۔ اس کے بعد وہ جام مکہ مکرمہ میں ملا اور لوگوں نے کہا کہ ہم نے اسے تمیم داری اور عدی سے خریدا ہے تو دو شخص میت کے عزیزوں میں سے کھڑے ہوئے اور انھوں نے قسم اٹھائی کہ ہماری شہادت ان دونوں کی شہادت کے مقابلے میں زیادہ وزنی ہے اور(ہم گواہی دیتے ہیں کہ) مذکورہ جام ہمارے عزیز ہی کا ہے۔ حضرت ابن عباس  ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت انھی کے حق میں نازل ہوئی : ’’مسلمانو!وصیت کے وقت تم پر گواہی لازم ہے جبکہ تم میں سے کوئی قریب المرگ ہو۔‘‘