باب : جہاد کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کے حالات کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The superiority of Jihad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے ہیں کہ انہیں جنت ملے گی‘ وہ مسلمان اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح ( محارب کفار کو ) یہ مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ( کہ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں جنت ملے گی ) سچاہے‘ تورات میں‘ انجیل میںاور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا کو ن ہو سکتا ہے ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودا کی وجہ سے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے‘ آخر آیت وبشر المومنین تک ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔
2782.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ !کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’بروقت نماز ادا کرنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: اس کےبعد؟آپ نے فرمایا: ’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: پھر اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے میں سکوت اختیار کیا۔ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ مجھے مزید جوابات سے نوازتے۔
تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ تین کاموں کو افضل عمل قراردیا ہے کیونکہ یہ تینوں کام دیگر طاعات کے لیے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس کے معنی ہیں کہ جوانسان ان کی بجاآوری کرے گا وہ باقی کاموں کی بجا آوری میں بھی پیش پیش ہوگا اور جو انھیں ادا کرنے میں پہلو تہی کرے گا وہ دیگر معاملات کو خراب کرنے میں بڑادلیر ہوگا۔ (فتح الباري:7/6) ایک حدیث میں (إطعام الطعام) کو بہترین اسلام کہا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث 12)جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے:’’دوسرے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ اورزبان سے تکلیف نہ دینا افضل اسلام ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث 11) اس قسم کی دیگر احادیث میں تضاد نہیں ہے کیونکہ رسول اللھ ﷺ ہرشخص کو اس کی حالت کے مطابق جواب دیتے تھے یا جس چیز کی مخاطب میں کمی محسوس کرتے،اس کے ازالے کے لیے مناسب جواب دیتے تھے۔واللہ أعلم۔ 2۔امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت ثابت کرنا ہے جو بالکل واضح ہے۔
جہاد کے معنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے طاقت صرف کرنا ہیں اور سِيَر كے مطلب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدين رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وہ حالات ہیں جو کفار سے جنگ کرتے ہوئے رونما ہوئے۔واضح رہے کہ جہاد کی دوقسمیں ہیں"اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد۔اقدامی جہاد:غلبہ دین کفر وشرک کے خاتمے،سرحدوں کی حفاظت اور عہد شکنی کی سزادینے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جو جنتگ لڑی جائے اسے اقدامی جہاد کیا جاتاہے۔دفاعی جہاد:اسلامی ریاست اور اہل اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جو مدافعانہ جنگ لڑی جائے اسے دفاعی جہاد کا نام دیاجاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں۔البتہ غزوہ خندق کے بعد اقدامی جہاد کی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں،تاہم اقدامی قتال مسلمانوں کے اجتماعی امور سے متعلق ہے جسے آج کل روشن خیال سیکولر طبقہ تسلیم نہیں کرتا۔ان کے نزدیک دین کا اجتماعیات میں کوئی دخل نہیں ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےنزدیک حدود اللہ سے مراد اللہ کی طاعات ہیں۔ان کادائرہ بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے،یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد وعبادات ،اخلاق ومعاشرت ،تہذیب وتمدن،تجارت ومعیشت ،سیاست ورریاست اور صلح و جنگ کے معاملات میں جوحدیں مقرر کررکھیں ہیں وہ ان سے آگے نہیں بڑھتے۔ظاہر ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنے والا ہی ان مذکورہ صفات والا ہوسکتاہے اور اس کے اوامر کو پورا کرسکتا ہے اور نواہی سے بچ سکتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے ہیں کہ انہیں جنت ملے گی‘ وہ مسلمان اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح ( محارب کفار کو ) یہ مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ( کہ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں جنت ملے گی ) سچاہے‘ تورات میں‘ انجیل میںاور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا کو ن ہو سکتا ہے ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودا کی وجہ سے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے‘ آخر آیت وبشر المومنین تک ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ !کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’بروقت نماز ادا کرنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: اس کےبعد؟آپ نے فرمایا: ’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: پھر اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے میں سکوت اختیار کیا۔ اگر میں زیادہ پوچھتا تو آپ مجھے مزید جوابات سے نوازتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ تین کاموں کو افضل عمل قراردیا ہے کیونکہ یہ تینوں کام دیگر طاعات کے لیے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس کے معنی ہیں کہ جوانسان ان کی بجاآوری کرے گا وہ باقی کاموں کی بجا آوری میں بھی پیش پیش ہوگا اور جو انھیں ادا کرنے میں پہلو تہی کرے گا وہ دیگر معاملات کو خراب کرنے میں بڑادلیر ہوگا۔ (فتح الباري:7/6) ایک حدیث میں (إطعام الطعام) کو بہترین اسلام کہا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث 12)جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے:’’دوسرے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ اورزبان سے تکلیف نہ دینا افضل اسلام ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث 11) اس قسم کی دیگر احادیث میں تضاد نہیں ہے کیونکہ رسول اللھ ﷺ ہرشخص کو اس کی حالت کے مطابق جواب دیتے تھے یا جس چیز کی مخاطب میں کمی محسوس کرتے،اس کے ازالے کے لیے مناسب جواب دیتے تھے۔واللہ أعلم۔ 2۔امام بخاری ؒ کا مقصد اس حدیث سے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت ثابت کرنا ہے جو بالکل واضح ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ تورات، انجیل اور قرآن سب کتابوں میں اللہ کے ذمے یہ پختہ وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو وفا کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟لہٰذا تم نے جو سودا کیا ہے اس پر خوشیاں مناؤ(اور یہی بہت بڑی کا میابی ہے۔ وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمد کرنے والے، روزہ دار، رکوع کرنے والے، سجدہ گزار، بھلےکاموں کا چرچا کرنے والے، برے کاموں سے روکنے والے اور حدود اللہ کی خفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ )ایسے اہل کو آپ خوشخبری سنادیں۔ "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ الحدود سے مراد اللہ تعالیٰ کی طاعات ہیں۔
فائدہ:جہاد کے معنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے طاقت صرف کرنا ہیں اورسِيَرکے معنی طریقہ ہیں۔ یہاںسِيَرکا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وہ حالات ہیں جو کفار سے جنگ کرتے ہوئے رونما ہوئے۔ واضح رہے کہ جہاد کی دو اقسام ہیں۔ اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد۔ اقدامی جہاد، غلبہ دین کفرو شرک کے خاتمے، سرحدوں کی حفاظت اور عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جو جنگ لڑی جائے اسے اقدامی جہاد کہا جا تا ہے۔ دفاعی جہاد، اسلامی ریاست اور اہل اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جو مدافعانہ جنگ لڑی جائے اسے دفاعی جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، البتہ غزوہ خندق کے بعد اقدامی جہاد کی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں، تاہم اقدامی قتال مسلمانوں کے اجتماعی امور سے متعلق ہے جسے آج کل روشن خیال سیکولر طبقہ تسلیم نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک دین کا اجتماعیات میں کوئی دخل نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن صباح نے بیان کیا‘ کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا‘ کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے ولید بن عیزار سے سنا ‘ ان سے سعید بن ایاس ابو عمروشیبانی نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ دین کے کاموں میں کون ساعمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا‘ میں نے پوچھا اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘ میں نے پوچھا اور اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر میں نے آپ ﷺ سے زیادہ سوالات نہیں کئے‘ ورنہ آپ ﷺ اسی طرح ان کے جوابات عنایت فرماتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Masud (RA): I asked Allah's Apostle, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What is the best deed?" He replied, "To offer the prayers at their early stated fixed times." I asked, "What is next in goodness?" He replied, "To be good and dutiful to your parents." I further asked, what is next in goodness?" He replied, "To participate in Jihad in Allah's Cause." I did not ask Allah's Apostle (ﷺ) anymore and if I had asked him more, he would have told me more.