باب : جہاد اور شہادت کے لئے مرد اور عورت دونوں کا دعاکرنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The invocation that Allah may let adorn with martyrdom)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمر ؓ نے دعاکی تھی کہ اے اللہ ! مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر ( مدینہ طیبہ ) میں شہادت کی موت عطا فرمائیو ۔
2788.
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور وہ آپ کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ اور حضرت ام حرام ؓ حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے تو اس نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ فراغت کے بعد وہ آپ کے سرمبارک سے جوئیں نکالنے لگی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کو نیند آگئی۔ پھر آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی تھے۔ اور سمندر کے وسط میں اپنی سواریوں پر سوار تھے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان ہیں۔‘‘ الفاظ کا یہ شک راوی حدیث اسحاق کو ہوا۔ ام حرام نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعافرمادی، پھرآپ اپنا سر مبارک رکھ کر سوگئے۔ اس مرتبہ بھی جب آپ بیدار ہوئے تو آپ مُسکرارہے تھے۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کیے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں جنگ لڑنے کے لیے جارہے ہیں۔‘‘ جیسا کہ پہلی مرتبہ فرمایاتھا۔ ام حرام نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پہلے لوگوں میں سے ہو۔‘‘ حضرت ام حرام ؓ نے حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے زمانے میں بحری سفر اختیار کیا۔ جب وہ سمندر سے باہرنکلیں تو اپنی سواری سے گر کر ہلاک (شہید) ہوگئیں۔
تشریح:
1۔حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں حضرت معاویہ ؓ نے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی۔اجازت ملنے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کےخلاف جنگ لڑنے کے لیے سمندری سفرکیا۔اس لشکر میں حضرت ابوذرغفاری ؓ ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ ،ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓاور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین شامل تھے۔اس غزوے میں حضرت ام حرام شہید ہوئیں۔شہادت کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے۔2۔امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مرد جہاد میں شریک اورشہادت کی دعا کرسکتا ہے اسی طرح عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے کہ اللہ مجھے مجاہدین میں شامل فرما،اللہ!مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے دور خلافت میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ جہاد کے لیے جاتی تھیں اور ان کے کھانے ،پینے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ 4۔رسول اللہ ﷺ اس خوشی میں مسکرائے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کو بھی جہاد کے ذریعے سے غلبہ نصیب ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔بہرحال رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور حدیث میں مذکور یہ بحری سفر فتح افریقہ کا سبب بنا۔ 5۔ واضح رہے کہ حضرت ام حرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں،اس لیے آپ ان کے گھر اکثر آیا جایا کرتے تھے۔وہ بھی آپ کے لیے ماں جیسی شفقت سے پیش آتی تھیں۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنها ۔
اپنے لیے شہادت کی دعا کرنا خود پر کافریاظالم کو مسلط کرنے کی دعا نہیں بلکہ شہادت کے ذریعے سے بلند مرتبہ حاصل کرنے کی دعا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ دعا اس سے پہلے متصل سند سے بیان ہوچکی ہے۔(صحیح البخاری فضائل المدینہ حدیث 1890)چونکہ مدینہ طیبہ کئی ایک خصوصیات کا حامل ہے جو دوسرے شہروں کو حاصل نہیں ہیں،اس لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہادت کی دعا میدان جنگ میں نہیں مانگی تاکہ مدینہ طیبہ سے باہر دفن نہ ہوں اور نہ اس سے باہر موت ہی آئے اگرچہ وہ شہادت کی موت ہی کیوں نہ ہو،چنانچہ آپ کو ابولؤلؤ فیروز نامی ملعون مجوسی غلام نے مسجد نبوی میں زہر آلود خنجر مارکر بحالت نماز شدید زخمی کردیا۔زخموں کی تاب نہ لاکر چند دن بعد وہ مرتبہ شہادت پاکرہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہوگئے۔۔۔۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
اور حضرت عمر ؓ نے دعاکی تھی کہ اے اللہ ! مجھے اپنے رسول ﷺ کے شہر ( مدینہ طیبہ ) میں شہادت کی موت عطا فرمائیو ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓ کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور وہ آپ کو کھلایا پلایا کرتی تھی۔ اور حضرت ام حرام ؓ حضرت عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں تشریف لے گئے تو اس نے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ فراغت کے بعد وہ آپ کے سرمبارک سے جوئیں نکالنے لگی۔ اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کو نیند آگئی۔ پھر آپ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کے کچھ لوگ خواب میں میرے سامنے لائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی تھے۔ اور سمندر کے وسط میں اپنی سواریوں پر سوار تھے جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر ہوتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تختوں پر براجمان ہیں۔‘‘ الفاظ کا یہ شک راوی حدیث اسحاق کو ہوا۔ ام حرام نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ مجھے ان لوگوں میں سے کردے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے دعافرمادی، پھرآپ اپنا سر مبارک رکھ کر سوگئے۔ اس مرتبہ بھی جب آپ بیدار ہوئے تو آپ مُسکرارہے تھے۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کیے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں جنگ لڑنے کے لیے جارہے ہیں۔‘‘ جیسا کہ پہلی مرتبہ فرمایاتھا۔ ام حرام نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوں میں کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم پہلے لوگوں میں سے ہو۔‘‘ حضرت ام حرام ؓ نے حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے زمانے میں بحری سفر اختیار کیا۔ جب وہ سمندر سے باہرنکلیں تو اپنی سواری سے گر کر ہلاک (شہید) ہوگئیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں حضرت معاویہ ؓ نے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی۔اجازت ملنے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کےخلاف جنگ لڑنے کے لیے سمندری سفرکیا۔اس لشکر میں حضرت ابوذرغفاری ؓ ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ ،ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام حرام بنت ملحان ؓاور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین شامل تھے۔اس غزوے میں حضرت ام حرام شہید ہوئیں۔شہادت کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے۔2۔امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مرد جہاد میں شریک اورشہادت کی دعا کرسکتا ہے اسی طرح عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے کہ اللہ مجھے مجاہدین میں شامل فرما،اللہ!مجھے شہادت کی موت عطا فرما۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے دور خلافت میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ جہاد کے لیے جاتی تھیں اور ان کے کھانے ،پینے اور مرہم پٹی کرنے کی خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ 4۔رسول اللہ ﷺ اس خوشی میں مسکرائے تھے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کو بھی جہاد کے ذریعے سے غلبہ نصیب ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔بہرحال رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی اور حدیث میں مذکور یہ بحری سفر فتح افریقہ کا سبب بنا۔ 5۔ واضح رہے کہ حضرت ام حرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی رضاعی خالہ تھیں،اس لیے آپ ان کے گھر اکثر آیا جایا کرتے تھے۔وہ بھی آپ کے لیے ماں جیسی شفقت سے پیش آتی تھیں۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنها ۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے دعا کی تھی: اے اللہ!مجھے اپنے رسول مقبول ﷺ کے شہر(مدینہ طیبہ) میں شہادت نصیب فرما۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا امام مالک سے‘ انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا‘ آپ بیان کرتے کہ رسول اللہ ﷺ ام حرام ؓ کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے (یہ انس کی خالہ تھیں جو عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں) ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپ ﷺ کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں‘ اس عرصے میں آپ ﷺ سوگئے‘ جب بیدار ہوئے تو آپ ﷺ مسکرا رہے تھے۔ ام حرام ؓ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لئے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جارہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پرہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں یہ شک اسحاق راوی کو تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ﷺ دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کےلئے دعا فرمائی پھر آپ ﷺ اپنا سر رکھ کر سوگئے‘ اس مرتبہ بھی آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لئے جا رہے ہیں پہلے کی طرح‘ اس مرتبہ بھی فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اللہ سے میرے لئے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہیں میں سے کردے۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہوگی (جو بحری راستے سے جہاد کرے گی) چنانچہ حضرت معاویہ ؓ کے زمانہ میں ام حرام ؓ نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرادیا اوراسی حادثہ میں ان کی وفات ہوگئی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت معاویہ ؓ اس وقت مصر کے گورنر تھے اور عثمان ؓ کی خلافت کا دور تھا‘ جب معاویہ ؓ نے آپؐ سے روم پر لشکر کشی کی اجازت مانگی اور اجازت مل جانے پر مسلمانوں کا سب سے پہلا بحری بیڑا تیار ہوا جس نے روم کے خلاف جنگ کی۔ ام حرام ؓ بھی اپنے شوہر کے ساتھ اس لڑائی میں شریک تھیں اور اس طرح آنحضرتؐ کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کی سب سے پہلی بحری جنگ میں شریک ہو کر شہید ہوئیں۔ فرضي اللہ عنها۔ شہادت کا وقوع اس وقت ہوا جب مسلمان جہاد سے لوٹ کر آرہے تھے‘ گو ام حرام خود نہیں لڑیں مگر اللہ کی راہ میں نکلی اور نص قرآن و حدیث کی رو سے جو کوئی جہاد کے لئے نکلے اور راہ میں اپنی موت سے مر جائے وہ بھی شہید ہے۔ پس ام حرام کو شہادت نصیب ہوئی اور اس طرح دعائے نبوی کا ظہور ہوا۔ حضرت ام حرام ؓ آپ ﷺ کی دودھ کی خالہ ہوتی ہیں‘ اسی لئے آپؐ ان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے‘ وہ بھی آپؐ کے لئے ماں سے بھی زیادہ شفیق تھیں‘ (رضي اللہ عنها) روایت سے عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا ثابت ہوا۔ حضرت امام بخاریؒ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے مرد یہ دعا کرسکتا ہے یا اللہ مجھ کو تو مجاہدین میں کر‘ مجھ کو شہادت نصیب کر‘ ایسے ہی عورت بھی یہ دعا کرسکتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانوں میں بھی عورتیں مجاہدین کے ہمراہ رہی ہیں۔ ان کے کھانے پینے‘ زخم پٹی کرنے کی خدمات عورتوں نے انجام دی ہیں۔ حضرت عمر ؓ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ مدینہ میں ابولولو مجوسی کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے (رضي اللہ عنه وأرضاہ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to visit Um Haran bint Milhan, who would offer him reals. Um-Haram was the wife of Ubadahh bin As-Samit. Allah's Apostle, once visited her and she provided him with food and started looking for lice in his head. Then Allah's Apostle (ﷺ) slept, and afterwards woke up smiling. Um Haran asked, "What causes you to smile, O Allah's Apostle?" He said. "Some of my followers who (in a dream) were presented before me as fighters in Allah's Cause (on board a ship) amidst this sea cause me to smile; they were as kings on the thrones (or like kings on the thrones)." (Ishaq, a sub-narrator is not sure as to which expression the Prophet (ﷺ) used.) Um-Haram said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Invoke Allah that he makes me one of them. Allah's Apostle (ﷺ) invoked Allah for her and slept again and woke up smiling. Once again Um Haram asked, "What makes you smile, O Allah's Apostle?" He replied, "Some of my followers were presented to me as fighters in Allah's Cause," repeating the same dream. Um-Haram said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Invoke Allah that He makes me one of them." He said, "You are amongst the first ones." It happened that she sailed on the sea during the Caliphate of Mu'awlya bin Abi Sufyan, and after she disembarked, she fell down from her riding animal and died.