باب : کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہوجائے‘ اسلام پر مضبوط رہے اوراللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: A disbeliever kills a Muslim and later on embraces Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2826.
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا، پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ پہلا وہ جس نے اللہ کےراستے میں جہاد کیا اور وہ شہید ہوگیا۔ دوسرا اس کا قاتل جسے اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی کہ وہ مسلمان ہوکر شہید ہوگیا۔ (اس طرح قاتل اورمقتول دونوں جنت میں داخل ہوگئے)۔‘‘
تشریح:
1۔ قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں۔ اگر مقتول جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ جب اپنی قدرت سے قاتل و مقتول دونوں کو جنت میں داخل کرتا ہے تو ہنس دیتا ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان کو شہید کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی وہ مسلمان ہوگیا اور مسلمانوں کی طرف سے لڑتے لڑتے اس نے بھی جام شہادت نوش کر لیا تو اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔2۔اس حدیث میں اللہ کی ایک صفت ضحک یعنی ہنسنے کا ذکر ہے۔اسے ہم مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں اس کی تاویل کرنا سلف صالحین کے موقف کے خلاف ہے البتہ اس کی کیفیت معلوم نہیں اور نہ اس کی کوئی مخلوق اس کی کسی صفت میں اس سے مشابہت ہی رکھتی ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا، پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ پہلا وہ جس نے اللہ کےراستے میں جہاد کیا اور وہ شہید ہوگیا۔ دوسرا اس کا قاتل جسے اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق دی کہ وہ مسلمان ہوکر شہید ہوگیا۔ (اس طرح قاتل اورمقتول دونوں جنت میں داخل ہوگئے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں۔ اگر مقتول جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ جب اپنی قدرت سے قاتل و مقتول دونوں کو جنت میں داخل کرتا ہے تو ہنس دیتا ہے وہ اس طرح کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان کو شہید کردیا پھر اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی وہ مسلمان ہوگیا اور مسلمانوں کی طرف سے لڑتے لڑتے اس نے بھی جام شہادت نوش کر لیا تو اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔2۔اس حدیث میں اللہ کی ایک صفت ضحک یعنی ہنسنے کا ذکر ہے۔اسے ہم مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں اس کی تاویل کرنا سلف صالحین کے موقف کے خلاف ہے البتہ اس کی کیفیت معلوم نہیں اور نہ اس کی کوئی مخلوق اس کی کسی صفت میں اس سے مشابہت ہی رکھتی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابو الزناد سے‘ انہوں نے اعرج سے اورانہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنس دے گا کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیا تھا اور پھر بھی دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ پہلا وہ جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہ شہید ہوگیا‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قاتل کو توبہ کی توفیق دی اوروہ بھی اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ اس طرح دونوں قاتل و مقتول بالآخر جنت میں داخل ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
: یعنی قاعدہ تو یہ ہے کہ قاتل اور مقتول ایک ساتھ جنت یا جہنم میں جمع نہ ہوں‘ اگر مقتول اور شہید (اللہ کے راستے کا) جنتی ہے تو یقیناً ایسے انسان کا قاتل جہنم میں جائے گا لیکن اللہ پاک خود اپنی قدرت کے عجائبات ملاحظہ فرماتا ہے تو اسے ہنسی آجاتی ہے کہ ایک شخص نے کافروں کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک مسلمان مجاہد کو شہید کردیا پھر خدا کی قدرت کہ اسے بھی یہ ایمان کی حالت نصیب ہوئی اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوگیا اور اس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہوگئے۔ اللہ پاک جب اپنی قدرت کا یہ عجوبہ دیکھتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے جیسے اللہ کی اور صفات حق ہیں اس طرح اس کا ہنسنا بھی حق ہے۔ جس کی کیفیت میں کرید کرنا بدعت ہے‘ سلف کا یہی مسلک ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام لانے سے اور جہاد کرنے سے کفر کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ امام احمد اور ہمام کی روایت سے یہ صراحت نکلتی ہے کہ ان دو شخصوں میں ایک مومن تھا ایک کافر۔ پس اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو عمداً یعنی جان بوجھ کر کسی شرعی وجہ کے بغیر قتل کرکے قاتل توبہ کرے اور اللہ کی راہ میں شہید ہو تو اس کا گناہ معاف نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا یہی قول ہے کہ قاتل مومن کی توبہ قبول نہیں اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ اس کی توبہ صحیح ہے اور آیت ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا﴾(النساء: 94) برطریق غلیظ ہے کہ لوگ اس سے باز رہیں‘ خلود سے مراد بہت مدت تک رہنا ہے (خلاصہ وحیدی) آج عیدالاضحیٰ ۹۱ھ کو جبکہ جماعت کی دعوت پر بمبئی عیدالاضحیٰ پڑھانے آیا ہوا تھا‘ یہ تشریحی بیان حوالۂ قلم کیا گیا۔ اللہ پاک آج کے مبارک دن میں یہ دعا قبول کرے کہ اس مبارک کتاب کی تکمیل کا شرف حاصل ہو۔ آمین یا رب العالمین۔قال ابن الجوزي أکثر السلف یمتنعون من تأویل مثل ھذا ویرونه کما جاء وینبغي أن یراعي مثل في مثل ھذا الإمرار اعتقاد أنه یشبه صفات اللہ صفات الخلق و معنی الإمرار عدم العلم بالمراد منه مع اعتقاد التنزیه (فتح الباري)یعنی ابن جوزی نے فرمایا کہ اکثر سلف صالحین اس قسم کی صفات الٰہی کی تاویل منع جانتے ہیں بلکہ جس طرح یہ وارد ہوتی ہیں اسی طرح تسلیم کرتے ہیں‘ اس اعتقاد کے ساتھ کہ اللہ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔ تسلیم کرنے کا مطلب یہ کہ ہم کو ان کے معانی معلوم ہیں‘ کیفیت معلوم نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah welcomes two men with a smile; one of whom kills the other and both of them enter Paradise. One fights in Allah's Cause and gets killed. Later on Allah forgives the 'killer who also get martyred (In Allah's Cause)."