باب : کافر اگر کفر کی حالت میں مسلمان کو مارے پھر مسلمان ہوجائے‘ اسلام پر مضبوط رہے اوراللہ کی راہ میں مارا جائے تو اس کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: A disbeliever kills a Muslim and later on embraces Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2827.
حضرت ابوہریرۃ ؓسےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ فتح خیبر کے بعد وہاں تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بھی غنیمت سے حصہ دیں تو اس پر سعید بن عاص کے ایک بیٹے (ابان بن سعید ؓ) نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! انھیں مال غنیمت سے کچھ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: یہ تو ابن قوقل کاقاتل ہے۔ سعید بن عاص کے بیٹے نے کہا: واہ!مجھے اس وبر جیسے پست قد پر تعجب ہے جو ابھی ابھی اس پہاڑ کی چوٹی سے ہمارے پاس آیا ہے اور مجھ پر اس آدمی کی موت کا عیب لگاتا ہے جو مسلمان تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت و تکریم سے نوازا (کہ وہ شہید ہوا) اور مجھے اس کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا (کہ میں اس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا)۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انھیں حصہ دیا یانہ دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ مجھ سے سعیدی نے، اس نے اپنے دادا سے اور اس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا۔ (امام بخاری ؒفرماتے ہیں کہ) سعیدی عمرو بن یحییٰ بن سعید بن عمرو سعید بن عاص کی اولاد سے ہے۔
تشریح:
1۔ ابن قوتل کا نام نعمان بن مالک ہے۔ وہ میدان اُحد میں ابان بن سعید کے ہاتھوں شہید ہوئے تھےانھوں نےمیدان اُحد میں دعا کی تھی اےاللہ! غروب آفتاب سے پہلے جنت کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور سورج غروب ہونے پہلے ہی شہید ہو گئے ابان بن سعید اس وقت کافر تھے پھر غزوہ احد کے بعد حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہو گئے۔2۔امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جنت کے حقدار ہو سکتے ہیں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر گناہ سے کوئی انسان توبہ کرلے تو پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر اسے اس گناہ کے باعث شرمندہ کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابوہریرۃ ؓسےروایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ فتح خیبر کے بعد وہاں تشریف فرماتھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بھی غنیمت سے حصہ دیں تو اس پر سعید بن عاص کے ایک بیٹے (ابان بن سعید ؓ) نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! انھیں مال غنیمت سے کچھ نہ دیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا: یہ تو ابن قوقل کاقاتل ہے۔ سعید بن عاص کے بیٹے نے کہا: واہ!مجھے اس وبر جیسے پست قد پر تعجب ہے جو ابھی ابھی اس پہاڑ کی چوٹی سے ہمارے پاس آیا ہے اور مجھ پر اس آدمی کی موت کا عیب لگاتا ہے جو مسلمان تھا اور اسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں عزت و تکریم سے نوازا (کہ وہ شہید ہوا) اور مجھے اس کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا (کہ میں اس کے ہاتھوں قتل نہیں ہوا)۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے انھیں حصہ دیا یانہ دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ مجھ سے سعیدی نے، اس نے اپنے دادا سے اور اس نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا۔ (امام بخاری ؒفرماتے ہیں کہ) سعیدی عمرو بن یحییٰ بن سعید بن عمرو سعید بن عاص کی اولاد سے ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن قوتل کا نام نعمان بن مالک ہے۔ وہ میدان اُحد میں ابان بن سعید کے ہاتھوں شہید ہوئے تھےانھوں نےمیدان اُحد میں دعا کی تھی اےاللہ! غروب آفتاب سے پہلے جنت کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور سورج غروب ہونے پہلے ہی شہید ہو گئے ابان بن سعید اس وقت کافر تھے پھر غزوہ احد کے بعد حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہو گئے۔2۔امام بخاری ؒنے اس سے ثابت کیا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جنت کے حقدار ہو سکتے ہیں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے ظاہر ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر گناہ سے کوئی انسان توبہ کرلے تو پہلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ پھر اسے اس گناہ کے باعث شرمندہ کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے عنبسہ بن سعید نے خبردی اوران سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میں جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ خیبر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور خیبر فتح ہوچکا تھا ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! میرا بھی ( مال غنیمت میں ) حصہ لگائیے ۔ سعید بن العاص کے ایک لڑکے ( ابان بن سعید ؓ ) نے کہا یا رسول اللہ ! ان کا حصہ نہ لگائیے ۔ اس پر ابو ہریرہ ؓ بولے کہ یہ شخص تو ابن قوقل ( نعمان بن مالک ؓ ) کا قاتل ہے ۔ ابان بن سعید ؓ نے کہا کتنی عجیب بات ہے کہ یہ جانور ( یعنی ابوہریرہ ابھی تو پہاڑ کی چوٹی سے بکریاں چراتے چراتے یہاں آگیا ہے اورایک مسلمان کے قتل کا مجھ پرالزام لگاتا ہے ۔ اس کو یہ خبر نہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں سے ( شہادت ) عزت دی اور مجھے اس کے ہاتھوں سے ذلیل ہونے سے بچالیا ( اگر اس وقت میں مارا جاتا ) تو دوزخی ہوتا‘ عنبسہ نے بیان کیا کہ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ ﷺ نے ان کابھی حصہ لگایا یا نہیں ۔ سفیان نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سعیدی نے اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا اورانہوں نے ابوہریرہ ؓ سے ۔ ابو عبداللہ ( امام بخاری ؒ) نے کہا کہ سعیدی سے مراد عمرو بن یحیٰ بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں ابن قوقل سے مراد نعمان بن مالک ابن ثعلبہ بن احرم بن فہر بن غنم صحابی ہیں‘ قوقل ان کے دادا ثعلبہ کا لقب تھا‘ وہ احد کے دن ابان کے ہاتھ سے شہید ہوئے تھے۔ کہتے ہیں انہوں نے اس دن یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ! سورج ڈوبنے سے پہلے میں جنت کی سیر کروں‘ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور وہ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔ وبر عرب میں بلی سے چھوٹا ایک جانور جس کی دم اور کان چھوٹے ہوتے ہیں۔ قدوم اور ضان جو لفظ آیا ہے بعضوں نے کہا یہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو قبیلہ دوس کے قریب تھا حضرت ابوہریرہ ؓ ادھر ہی کے باشندے تھے گویا ابان بن سعید نے حضرت ابوہریرہ ؓ پر یہ طعن کیا‘ ان کے پستہ قد ہونے کو وبر سے تشبیہ دی اور بکریوں کا گڈریا قرار دیتے ہوئے اپنے جرم کا اقرار بھی کیا مگر یہ کہ اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے بعد میں اللہ نے دولت اسلام سے سرفراز کردیا۔ حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں : والمراد منه ھھنا قول أبان أکرمه اللہ علی یدي ولم بھنی علی یدیه و أراد بذالك أن النعمان استشھد بیر ابان فأکرمه اللہ بالشھادة ولم یقتل أبان علی کفرہ فیدخل النار وھو المراد بالإھانة بل عاش أبان حتی تاب و أسلم وکان إسلامه قبل خیبر بعد الحدبیة وقال ذالك الکلام بحضرة النبي صلی اللہ علیه وسلم وأقرہ علیه وموافق لما تضنمة للعرجمة(فتح الباري)قول ابان سے یہاں مراد یہ کہ اللہ نے میرے ہاتھ پر ان کو عزت شہادت دی اور ان کے ہاتھوں سے قتل کرا کر مجھ کو ذلیل نہیں کیا‘ جس سے مراد لیا کہ نعمانؓ ابانؓ کے ہاتھ سے شہید ہوئے پس اللہ نے ان کا اکرام فرمایا اور ابان کفر پر نہیں مرا ورنہ دوزخ میں جاتا۔ اللہ نے ان کو حدیبیہ کے بعد اسلام نصیب فرمایا۔ ابان نے یہ باتیں آنحضرتﷺ کے سامنے بیان کیں آپؐ خاموش رہے‘ اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔ آپؐ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا حصہ نہیں لگایا۔ اس پر حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں واحتج به من قال إن من حضر بعد فراغ الوقعة ولو کان خرج مددا لھم أن لا بشارك من حضرھا وھو قول الجمھور(فتح الباري)یعنی اس سے دلیل لی اس نے جس نے کہا کہ جو شخص جنگ ہونے کے بعد حاضر ہو اگرچہ وہ مدد کرنے کے ہی لئے آیا ہو‘ اس کو حاضر ہونے والوں کے ساتھ حصوں میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کا یہی قول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I went to Allah's Apostle (ﷺ) while he was at Khaibar after it had fallen in the Muslims' hands. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Give me a share (from the land of Khaibar)." One of the sons of Sa'id bin Al-'As said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Do not give him a share." I said, "This is the murderer of Ibn Qauqal." The son of Said bin Al-As said, "Strange! A Wabr (i.e. guinea pig) who has come down to us from the mountain of Qaduim (i.e. grazing place of sheep) blames me for killing a Muslim who was given superiority by Allah because of me, and Allah did not disgrace me at his hands (i.e. was not killed as an infidel)." (The sub-narrator said "I do not know whether the Prophet (ﷺ) gave him a share or not.")