باب : اللہ کی راہ ( جہاد میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The Superiority of spending in Allah's Cause)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2842.
حضرت ابو سعید خدری ؓسےروایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ’’مجھے تم پر اپنے بعد جس چیز کا خطرہ ہے وہ صرف یہ کہ زمین کی برکتیں تم پر کھول دی جائیں گی۔‘‘ پھر آپ نے دنیا کی زیب وزینت اور رونق کا ذکر کیا۔ آپ نے پہلے دنیا کی برکات کا ذکر کیا پھر اس کی رونق کو بیان کیا۔ اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا خیرکے ساتھ شر بھی آتا ہے؟ یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ پر وحی آرہی ہے۔ لوگ بھی خاموش ہو گئے گویا ان کے سروں پر پرندےہوں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور دریافت فرمایا: ’’ابھی ابھی سوال کرنے والا کہاں ہے جو کہتا تھا یہ مال خیر ہے؟‘‘ آپ نے تین مرتبہ اسے دہرایا۔ پھر فرمایا: ’’واقعی خیر، خیر ہی سےحاصل ہوتی ہے۔ (خیر، خیر ہی لاتی ہے۔ ) دیکھو موسم بہار میں جب ہری گھاس پیدا ہوتی ہے وہ جانور کو مار دیتی ہے یا مارنے کے قریب کردیتی ہے مگر وہ جانور بچ جاتا ہے جو ہری گھاس چرتا ہے، جب اس کی کوکھیں بھر جائیں تو دھوپ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، لید اور پیشاب کرتا ہے، پھر ہضم ہونے کے بعد مزید چرنے لگتا ہے۔ اسی طرح دنیا کا یہ مال بھی ہرا بھرا اور شیریں ہے۔ مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو حلال ذرائع سے کمایا ہو۔ پھر اسے اللہ کے راستے میں یتیموں اور مسکینوں کے لیے وقف کردیا لیکن جس شخص نے ناجائز ذرائع سے مال جمع کیا تو اس کی مثال اس کھانے والے کی طرح ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ ایسا مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘
تشریح:
جس شخص نے دنیا کا مال ناحق حاصل کیا اور اسے بے جا خرچ کیا وہ اسراف و تبذیر میں مبتلا رہا اس کے لیے یہ مال وبال جان ہوگا،اس کے برعکس جس شخص نے مال حلال ذرائع سے حاصل کیا اورخرچ کرتے وقت میانہ روی اختیار کی،ناحق مال حاصل کرنے اور بے جاخرچ کرنے سے گریز کیا،وہ ہلاکت وتباہی سے بچ جائے گا۔مقصد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے انسان آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہتا ہے۔اما بخاری ؒنے اس حدیث میں اسی بات کو ثابت کیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓسےروایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ’’مجھے تم پر اپنے بعد جس چیز کا خطرہ ہے وہ صرف یہ کہ زمین کی برکتیں تم پر کھول دی جائیں گی۔‘‘ پھر آپ نے دنیا کی زیب وزینت اور رونق کا ذکر کیا۔ آپ نے پہلے دنیا کی برکات کا ذکر کیا پھر اس کی رونق کو بیان کیا۔ اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ !کیا خیرکے ساتھ شر بھی آتا ہے؟ یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ پر وحی آرہی ہے۔ لوگ بھی خاموش ہو گئے گویا ان کے سروں پر پرندےہوں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور دریافت فرمایا: ’’ابھی ابھی سوال کرنے والا کہاں ہے جو کہتا تھا یہ مال خیر ہے؟‘‘ آپ نے تین مرتبہ اسے دہرایا۔ پھر فرمایا: ’’واقعی خیر، خیر ہی سےحاصل ہوتی ہے۔ (خیر، خیر ہی لاتی ہے۔ ) دیکھو موسم بہار میں جب ہری گھاس پیدا ہوتی ہے وہ جانور کو مار دیتی ہے یا مارنے کے قریب کردیتی ہے مگر وہ جانور بچ جاتا ہے جو ہری گھاس چرتا ہے، جب اس کی کوکھیں بھر جائیں تو دھوپ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، لید اور پیشاب کرتا ہے، پھر ہضم ہونے کے بعد مزید چرنے لگتا ہے۔ اسی طرح دنیا کا یہ مال بھی ہرا بھرا اور شیریں ہے۔ مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو حلال ذرائع سے کمایا ہو۔ پھر اسے اللہ کے راستے میں یتیموں اور مسکینوں کے لیے وقف کردیا لیکن جس شخص نے ناجائز ذرائع سے مال جمع کیا تو اس کی مثال اس کھانے والے کی طرح ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ ایسا مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
جس شخص نے دنیا کا مال ناحق حاصل کیا اور اسے بے جا خرچ کیا وہ اسراف و تبذیر میں مبتلا رہا اس کے لیے یہ مال وبال جان ہوگا،اس کے برعکس جس شخص نے مال حلال ذرائع سے حاصل کیا اورخرچ کرتے وقت میانہ روی اختیار کی،ناحق مال حاصل کرنے اور بے جاخرچ کرنے سے گریز کیا،وہ ہلاکت وتباہی سے بچ جائے گا۔مقصد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے انسان آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہتا ہے۔اما بخاری ؒنے اس حدیث میں اسی بات کو ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے فلیح نے بیان کیا‘ ان سے ہلال نے بیان کیا‘ ان سے عطاءبن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا میرے بعد تم پر دنیا کی جو برکتیں کھول دی جائیں گی‘ میں تمہارے بارے میں ان سے ڈر رہا ہوں کہ (کہیں تم ان میں مبتلا نہ ہو جاؤ) اس کے بعد آپ نے دنیا کی رنگینیوں کو ذکر فرمایا۔ پہلے دنیا کی برکات کا ذکر کیا پھر اس کی رنگینیوں کو بیان فرمایا‘ اتنے میں ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا بھلائی برائی پیداکردے گی۔ آپ اس پر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ سب لوگ خاموش ہوگئے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے چہرہ مبارک سے پسینہ صاف کیا اور دریافت فرمایا سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ کیا یہ بھی (مال اور دینا کی برکات) خیر ہے ؟ تین مرتبہ آ پ نے یہی جملہ دہرایا پھر فرمایا دیکھو بہار کے موسم میں جب ہری گھاس پیدا ہوتی ہے‘ وہ جانور کو مار ڈالتی ہے یا مرنے کے قریب کردیتی ہے مگر وہ جانور بچ جاتا ہے جو ہری ہری دوب چرتا ہے‘ کوکھیں بھرتے ہی سورج کے سامنے جا کھڑاہوتا ہے۔ لید‘ گوبر‘ پیشاب کرتا ہے پھر اس کے ہضم ہوجانے کے بعد اور چرتا ہے‘ اسی طرح یہ مال بھی ہرا بھرا اور شیریں ہے اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جسے اس نے حلال طریقوں سے جمع کیا ہواور پھراسے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) یتیموں کے لئے مسکینوں کے لئے وقف کردیا ہو لیکن جو شخص ناجائز طریقوں سے جمع کرتا ہے تو وہ ایک ایسا کھانے والا ہے جو کبھی آسودہ نہیں ہوتا اور وہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Allah's Apostle (ﷺ) ascended the pulpit and said, "Nothing worries me as to what will happen to you after me, except the temptation of worldly blessings which will be conferred on you." Then he mentioned the worldly pleasures. He started with the one (i.e. the blessings) and took up the other (i.e. the pleasures). A man got up saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Can the good bring about evil?" The Prophet (ﷺ) remained silent and we thought that he was being inspired divinely, so all the people kept silent with awe. Then the Prophet (ﷺ) wiped the sweat off his face and asked, "Where is the present questioner?" "Do you think wealth is good?" he repeated thrice, adding, "No doubt, good produces nothing but good. Indeed it is like what grows on the banks of a stream which either kills or nearly kills the grazing animals because of gluttony except the vegetation-eating animal which eats till both its flanks are full (i.e. till it gets satisfied) and then stands in the sun and defecates and urinates and again starts grazing. This worldly property is sweet vegetation. How excellent the wealth of the Muslim is, if it is collected through legal means and is spent in Allah's Cause and on orphans, poor people and travelers. But he who does not take it legally is like an eater who is never satisfied and his wealth will be a witness against him on the Day of Resurrection."