باب: اس تفصیل میں کہ جنبی گھر سے باہر نکل سکتا اور بازار وغیرہ جا سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: A Junub person) can go out and walk in the market or anywhere else)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عطا نے کہا کہ جنبی پچھنا لگوا سکتا ہے، ناخن ترشوا سکتا ہے اور سر منڈوا سکتا ہے۔ اگرچہ وضو بھی نہ کیا ہو۔
285.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات بحالت جنابت ہوئی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے اٹھا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ وہاں میں نے غسل کیا، پھر حاضر خدمت ہوا، آپ وہیں تشریف فر تھے۔ آپ نے فرمایا:’’ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟‘‘ میں نے آپ سے عرض کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوہریرہ! سبحان اللہ! بلاشبہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک جنبی آدمی غسل کیے بغیر ہرکام میں مصروف ہو سکتا ہے۔حضرت عطاء کے قول کو بطوراستدلال پیش کیا ہے لیکن کچھ حضرات نے اس سلسلے میں حضرت عطاء کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ سب کاموں سے پہلے وضو کرنے کو مستحب قراردیتے تھے۔ حدیث انس سے حضرت عطاء کے موقف کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں وضو کرنے کاذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري:508/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ وغیرہ وضو یا غسل سے پہلے بحالت جنابت دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کو پسند نہ کرتے تھے۔ جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جنابت سے قبل جنسی آدمی کو چلنے پھرنے کی ممانعت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ایک بیوی کے پاس سے دوسری بیوی کے پاس بحالت جنابت تشریف لے گئے، پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے گھر مسجد کے چاروں طرف واقع تھے۔ جب ایک حجرے سے دوسرے حجرے تک جانے کی اجازت ہے تو محلے میں بھی چلنے پھرنے کی اجازت ہوگی، پھر محلے میں چلنا اور بازار میں جانا دونوں برابر ہیں۔ جب آمدورفت کاجواز ہے تو کھانے پینے میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے۔ اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے ۔ دوسری روایت میں تو یہ بات اورواضح ہوگئی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے مدینے کے کسی راستے میں ملے جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس وقت حالت جنابت میں تھے ۔ اس سے جنابت کی حالت میں بازار کی آمدورفت ثابت ہوئی۔ 2۔ علامہ عینی ىؒ لکھتے ہیں کہ عام فقہاء کا یہ موقف ہے کہ جنبی آدمی بازار میں جاسکتا ہے اور آمدورفت رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ (113۔112/1) میں ہے کہ حضرت علی ؓ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت شداد بن اوس ؓ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ، مجاہد ؒ ، ابن سیرین ؒ ، زہری ؒ ، محمد بن علی ؒ، اور امام نخعی ؒ جنابت کے بعد وضو سے پہلے نہ کچھ کھاتے اور نہ گھر ہی سے باہر نکلتے۔ اسی طرح امام بیہقی ؒ نے کتاب الطہارت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، عبداللہ بن عمروؓ ، حضرت عطا ؒ اور حسن بصری ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ حضرات بھی وضو کے بغیر مشاغل میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ (عمدة القاري:74/3) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کا قول بیان جواز کے لیے پیش کیا ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جنابت کے بعد وضو کرلیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ بھی نقل وحرکت کے علاوہ کوئی فعل بحالت جنابت ثابت نہیں۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے، فرماتے ہیں:’’جسے رات کو جنابت لاحق ہو، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ وضو کرو اور شرم گاہ کو دھولو اور پھر سوجاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ جنابت چونکہ فرشتوں کی صفات وطبائع کے منافی ہے اور وہ ہروقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہی پسندہے کہ وہ بحالت جنابت یوں ہی آزادی وبےپروائی سے اپنی ضروریات، سونے، کھانے پینے میں مصروف نہ ہو۔ اگرطہارت کبریٰ (غسل) نہ کرسکے تو کم از کم طہارت صغریٰ (وضو) ہی کرلے، کیونکہ فی الجملہ طہارت کا حصول دونوں سے ہوجاتا ہے، اگرچہ شارع نے دونوں کو، جداجدا احداث پر تقسیم کردیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة:557۔558/1) اس بنا پر بہتر ہے کہ جنبی آدمی کم از کم وضو کرلے۔ اگرچہ جواز کی حد تک وضو کے بغیر رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
286
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
285
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
285
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
285
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
جنابت کے فوراً بعدغسل کرنا واجب نہیں بلکہ نماز کاوقت آنے سے پہلے پہلے جنبی کو ہر کام کرنے کی اجازت ہے ،خواہ اس کام میں چلنے پھرنے کی نوبت آئے یا ایک جگہ بیٹھ کر انجام دیا جاسکے،یعنی اسے کھانے پینے اور سونے،لیٹنے کی اجازت ہے۔اسی مناسبت سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عطاء کا قول نقل کیا ہے جسے مصنف عبدالرزاق (282/1) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے،البتہ نماز کا وقت آنے پر اسے فوراً غسل کرنا ہوگا تاکہ اس کی بروقت ادائیگی ہو۔
اور عطا نے کہا کہ جنبی پچھنا لگوا سکتا ہے، ناخن ترشوا سکتا ہے اور سر منڈوا سکتا ہے۔ اگرچہ وضو بھی نہ کیا ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ سے میری ملاقات بحالت جنابت ہوئی۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے اٹھا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ وہاں میں نے غسل کیا، پھر حاضر خدمت ہوا، آپ وہیں تشریف فر تھے۔ آپ نے فرمایا:’’ابوہریرہ! تم کہاں تھے؟‘‘ میں نے آپ سے عرض کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوہریرہ! سبحان اللہ! بلاشبہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک جنبی آدمی غسل کیے بغیر ہرکام میں مصروف ہو سکتا ہے۔حضرت عطاء کے قول کو بطوراستدلال پیش کیا ہے لیکن کچھ حضرات نے اس سلسلے میں حضرت عطاء کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ سب کاموں سے پہلے وضو کرنے کو مستحب قراردیتے تھے۔ حدیث انس سے حضرت عطاء کے موقف کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں وضو کرنے کاذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري:508/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ وغیرہ وضو یا غسل سے پہلے بحالت جنابت دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کو پسند نہ کرتے تھے۔ جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جنابت سے قبل جنسی آدمی کو چلنے پھرنے کی ممانعت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ایک بیوی کے پاس سے دوسری بیوی کے پاس بحالت جنابت تشریف لے گئے، پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے گھر مسجد کے چاروں طرف واقع تھے۔ جب ایک حجرے سے دوسرے حجرے تک جانے کی اجازت ہے تو محلے میں بھی چلنے پھرنے کی اجازت ہوگی، پھر محلے میں چلنا اور بازار میں جانا دونوں برابر ہیں۔ جب آمدورفت کاجواز ہے تو کھانے پینے میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے۔ اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے ۔ دوسری روایت میں تو یہ بات اورواضح ہوگئی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے مدینے کے کسی راستے میں ملے جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس وقت حالت جنابت میں تھے ۔ اس سے جنابت کی حالت میں بازار کی آمدورفت ثابت ہوئی۔ 2۔ علامہ عینی ىؒ لکھتے ہیں کہ عام فقہاء کا یہ موقف ہے کہ جنبی آدمی بازار میں جاسکتا ہے اور آمدورفت رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ (113۔112/1) میں ہے کہ حضرت علی ؓ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت شداد بن اوس ؓ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ، مجاہد ؒ ، ابن سیرین ؒ ، زہری ؒ ، محمد بن علی ؒ، اور امام نخعی ؒ جنابت کے بعد وضو سے پہلے نہ کچھ کھاتے اور نہ گھر ہی سے باہر نکلتے۔ اسی طرح امام بیہقی ؒ نے کتاب الطہارت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، عبداللہ بن عمروؓ ، حضرت عطا ؒ اور حسن بصری ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ حضرات بھی وضو کے بغیر مشاغل میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ (عمدة القاري:74/3) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کا قول بیان جواز کے لیے پیش کیا ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جنابت کے بعد وضو کرلیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ بھی نقل وحرکت کے علاوہ کوئی فعل بحالت جنابت ثابت نہیں۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے، فرماتے ہیں:’’جسے رات کو جنابت لاحق ہو، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ وضو کرو اور شرم گاہ کو دھولو اور پھر سوجاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ جنابت چونکہ فرشتوں کی صفات وطبائع کے منافی ہے اور وہ ہروقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہی پسندہے کہ وہ بحالت جنابت یوں ہی آزادی وبےپروائی سے اپنی ضروریات، سونے، کھانے پینے میں مصروف نہ ہو۔ اگرطہارت کبریٰ (غسل) نہ کرسکے تو کم از کم طہارت صغریٰ (وضو) ہی کرلے، کیونکہ فی الجملہ طہارت کا حصول دونوں سے ہوجاتا ہے، اگرچہ شارع نے دونوں کو، جداجدا احداث پر تقسیم کردیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة:557۔558/1) اس بنا پر بہتر ہے کہ جنبی آدمی کم از کم وضو کرلے۔ اگرچہ جواز کی حد تک وضو کے بغیر رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عطاء نے کہا: جنبی سینگی لگوا سکتا ہے، اپنے ناخن کاٹ سکتا ہے اور اپنا سر بھی منڈوا سکتا ہے، خواہ اس نے وضو نہ کیا ہو۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عیاش نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حمید نے بکر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابورافع سے، وہ ابوہریرہ ؓ سے، کہا کہ میری ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہوئی۔ اس وقت میں جنبی تھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ساتھ چلنے لگا۔ آخر آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں آہستہ سے اپنے گھر آیا اور غسل کر کے حاضر خدمت ہوا۔ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے، میں نے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ! مومن تو نجس نہیں ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی اور باب کی مطابقت بھی ظاہر ہے کہ ابوہریرہ ؓ حالت جنابت میں راہ چلتے ہوئے آنحضرت ﷺ ملے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came across me and I was Junub He took my hand and I went along with him till he sat down I slipped away, went home and took a bath. When I came back. He was still sitting there. He then said to me, "O AbuHurairah! Where have you been?' I told him about it The Prophet (ﷺ) said, "Subhan Allah! O Abu Hurairah (RA) ! A believer never becomes impure."