باب: غسل سے پہلے جنبی کا گھر میں ٹھہرنا جب کہ وضو کر لے (جائز ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: A Junub can stay at home without taking a bath but with ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
286.
حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا: آیا نبی ﷺ بحالت جنابت گھر میں سو جاتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، لیکن وضو کر لیتے تھے۔
تشریح:
صحیح مسلم کی روایت میں مزید وضاحت ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب بحالت جنابت سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو کر لیتے، جیسا کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، بلکہ خود امام بخاری ؒ نے اگلی روایت (288) میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز کے وضو جیسا وضوکرکے سو جاتے۔ دراصل بخاری حضرت علی ؓ سےمروی ایک حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا، تصویر اورجنبی موجود ہو۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:227) بعض حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ روایت ابی داؤد کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ روایت دوسری صحیح روایات کے مقابلے میں قابل عمل نہیں، لیکن حافظ ابن حجر ؒ اس موقف سے مطمئن نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ سے مروی روایت اس شخص کے بارے میں ہے جو غسل جنابت کے معاملے میں بے پروائی کا عادی ہو۔ ایسے شخص کی سزا یہی ہونی چاہیے کہ اس کے گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں، لیکن جو شخص عادی نہیں، وہ غسل جنابت کا پورا اہتمام کرتا ہے، لیکن بعض اوقات کسی عذر کی وجہ سے غسل میں تاخیر ہوجاتی ہے تو جب تک نماز کا وقت نہ ہوجائے اس وقت تک جنبی رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک توجیہ یہ بھی لکھی ہے کہ حدیث علی ؓ سے مراد وہ جنبی ہے جو وضو بھی نہیں کرتا ہے، اس لیے اگر غسل کا موقع نہ دو تو اتنے وقت کے لیے یہ تخفیفی طہارت کرلی جائے تاکہ فرشتوں کی آمد ورفت بھی ہو سکے اور طبیعت بھی ہلکی رہے۔ اس طرح ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ (فتح الباري:508/1) ہمارے نزدیک بھی تطبیق کی یہی صورت بہتر ہے کہ جنبی بے وضو ہوتو رحمت کا فرشتہ گھر میں نہیں آئے گا۔ اگر وضو کر لے تو کم از کم فرشتے کی آمدورفت کے لیے راہ کھل جاتی ہے اوراتباع سنت کا شرف بھی حاصل ہوجائےگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
287
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
286
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
286
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
286
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا: آیا نبی ﷺ بحالت جنابت گھر میں سو جاتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، لیکن وضو کر لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
صحیح مسلم کی روایت میں مزید وضاحت ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب بحالت جنابت سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو کر لیتے، جیسا کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، بلکہ خود امام بخاری ؒ نے اگلی روایت (288) میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز کے وضو جیسا وضوکرکے سو جاتے۔ دراصل بخاری حضرت علی ؓ سےمروی ایک حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا، تصویر اورجنبی موجود ہو۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:227) بعض حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ روایت ابی داؤد کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ روایت دوسری صحیح روایات کے مقابلے میں قابل عمل نہیں، لیکن حافظ ابن حجر ؒ اس موقف سے مطمئن نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ سے مروی روایت اس شخص کے بارے میں ہے جو غسل جنابت کے معاملے میں بے پروائی کا عادی ہو۔ ایسے شخص کی سزا یہی ہونی چاہیے کہ اس کے گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں، لیکن جو شخص عادی نہیں، وہ غسل جنابت کا پورا اہتمام کرتا ہے، لیکن بعض اوقات کسی عذر کی وجہ سے غسل میں تاخیر ہوجاتی ہے تو جب تک نماز کا وقت نہ ہوجائے اس وقت تک جنبی رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک توجیہ یہ بھی لکھی ہے کہ حدیث علی ؓ سے مراد وہ جنبی ہے جو وضو بھی نہیں کرتا ہے، اس لیے اگر غسل کا موقع نہ دو تو اتنے وقت کے لیے یہ تخفیفی طہارت کرلی جائے تاکہ فرشتوں کی آمد ورفت بھی ہو سکے اور طبیعت بھی ہلکی رہے۔ اس طرح ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ (فتح الباري:508/1) ہمارے نزدیک بھی تطبیق کی یہی صورت بہتر ہے کہ جنبی بے وضو ہوتو رحمت کا فرشتہ گھر میں نہیں آئے گا۔ اگر وضو کر لے تو کم از کم فرشتے کی آمدورفت کے لیے راہ کھل جاتی ہے اوراتباع سنت کا شرف بھی حاصل ہوجائےگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام اور شیبان نے، وہ یحیٰی سے، وہ ابوسلمہ سے کہا میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ جنابت کی حالت میں گھر میں سوتے تھے؟ کہا ہاں لیکن وضو کر لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ جس گھرمیں کتا یا تصویر یاجنبی ہو تو وہاں فرشتے نہیں آتے۔ امام بخاری ؒ نے یہ باب لاکر بتلایا ہے وہاں جنبی سے وہ مراد ہے جو وضو بھی نہ کرے اور جنابت کی حالت میں بے پروا بن کر یوں ہی گھرمیں پڑا رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama (RA): I asked 'Aisha (RA) "Did the Prophet (ﷺ) use to sleep while he was Junub?" She replied, "Yes, but he used to perform ablution (before going to bed).