باب: اس بارے میں کہ بغیر غسل کئے جنبی کا سونا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Sleeping of a Junub person)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
287.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، وضو کر کے بحالت جنابت سو سکتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ سنن نسائی میں اس حدیث کا سبب ورود بایں الفاظ بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جنابت لاحق ہوئی تو وہ اپنے والد محترم حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اور ان سے سونے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے یہی سوال رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’وضو کر لے اور سو جائے ۔‘‘ اس بنا پر یہ واقعہ حضرت ابن عمر ؓ سے متعلق ہو گا اور جواب میں صیغہ خطاب اس لیے استعمال فرمایا کہ حضرت ابن عمر ؓ مجلس سوال میں موجود تھے اور مسئلہ بھی ان سے متعلق تھا تو رسول اللہ ﷺ نے براہ راست ان سے خطاب فرمایا کہ وضو کر لو، شرم گاہ دھو لو، پھر سو جاؤ، جیسا کہ آئندہ حدیث نمبر(290) میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:510/1) 2۔ پہلا عنوان عام تھا، کیونکہ وہاں (كَيْنُونَة) کا لفظ ’’ہونا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا تھا، چاہے انسان مکان میں بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔ اب یہ دوسرا باب عنوان خاص ہے، یعنی جنبی ہو سکتا ہے روایات میں سوال ہی کے اندر وضو کی قید موجود ہے، یعنی کیا ایسی صورت میں جنبی آدمی وضو کر کے سو سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے سوال کی رعایت کرتے ہوئے اس قید کو جواب میں دہرا دیا۔ ایسی قید میں مفہوم مخالف کی رعایت نہیں ہوتی۔ یہ مطلب نہیں کہ وضو کے بغیر سونا ناجائز ہے، بعض روایات میں نیند کو موت کی بہن کہا گیا ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني:حدیث:923 والسلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1087) ہرانسان کی خواہش ہوتی ہے کہ مجھے موت اچھی حالت میں آئے اسی طرح انسان کا جذبہ ہونا چاہیے کہ نیند بھی اچھی حالت میں (باوضو) آئے، وضو کرنا ضروری نہیں، افضل ہے اگرچہ بعض ظاہری حضرات اسے واجب قراردیتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
288
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
287
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
287
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
287
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہاں کوئی عنوان نہیں بلکہ حدیث الباب کو سابق باب کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اس صورت میں مطابقت بایں طور ہے کہ جب بحالت جنابت سونے کا جواز معلوم ہو گیا تو اس حالت میں استقرار بیت کاثبوت خود بخود ہو گیا جو سابق عنوان کا مقصد ہے۔ مستقل عنوان کی صورت میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے بظاہر یہ عنوان زائد ہے کیونکہ آگے اس سے ملتا جلتا ایک عنوان آرہا ہے تاہم یہ توجیہ ہوسکتی ہے کہ یہ عنوان مطلق اور آئندہ قید وضو کے ساتھ مقید ہے۔( فتح الباری:1/509۔)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، وضو کر کے بحالت جنابت سو سکتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سنن نسائی میں اس حدیث کا سبب ورود بایں الفاظ بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جنابت لاحق ہوئی تو وہ اپنے والد محترم حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اور ان سے سونے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے یہی سوال رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’وضو کر لے اور سو جائے ۔‘‘ اس بنا پر یہ واقعہ حضرت ابن عمر ؓ سے متعلق ہو گا اور جواب میں صیغہ خطاب اس لیے استعمال فرمایا کہ حضرت ابن عمر ؓ مجلس سوال میں موجود تھے اور مسئلہ بھی ان سے متعلق تھا تو رسول اللہ ﷺ نے براہ راست ان سے خطاب فرمایا کہ وضو کر لو، شرم گاہ دھو لو، پھر سو جاؤ، جیسا کہ آئندہ حدیث نمبر(290) میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:510/1) 2۔ پہلا عنوان عام تھا، کیونکہ وہاں (كَيْنُونَة) کا لفظ ’’ہونا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا تھا، چاہے انسان مکان میں بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔ اب یہ دوسرا باب عنوان خاص ہے، یعنی جنبی ہو سکتا ہے روایات میں سوال ہی کے اندر وضو کی قید موجود ہے، یعنی کیا ایسی صورت میں جنبی آدمی وضو کر کے سو سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے سوال کی رعایت کرتے ہوئے اس قید کو جواب میں دہرا دیا۔ ایسی قید میں مفہوم مخالف کی رعایت نہیں ہوتی۔ یہ مطلب نہیں کہ وضو کے بغیر سونا ناجائز ہے، بعض روایات میں نیند کو موت کی بہن کہا گیا ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني:حدیث:923 والسلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1087) ہرانسان کی خواہش ہوتی ہے کہ مجھے موت اچھی حالت میں آئے اسی طرح انسان کا جذبہ ہونا چاہیے کہ نیند بھی اچھی حالت میں (باوضو) آئے، وضو کرنا ضروری نہیں، افضل ہے اگرچہ بعض ظاہری حضرات اسے واجب قراردیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے نافع سے، وہ ابن عمر ؓ سے کہ عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ فرمایا ہاں، وضو کر کے جنابت کی حالت میں بھی سو سکتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): I asked Allah's Apostle (ﷺ) "Can any one of us sleep while he is Junub?" He replied, "Yes, if he performs ablution, he can sleep while he is Junub."