باب : اللہ کے راستے میں جہاد میں پہرہ دینا کیسا ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Vigilance during holy battles in Allah's Cause)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2885.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار رہے جب مدینہ طیبہ پہنچے تو فرمایا: ’’ کاش!میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مراد آج رات ہماری پاسبانی کرے۔‘‘ پھر ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور آپ کی پاسبانی کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ محو استراحت ہوگئے۔
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے:رسول اللہ ﷺ اس رات آرام سے سوئے حتی کہ ہم نے آپ کےخراٹوں کی آواز سنی۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث 7231) 2۔ ظاہر روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ آنے سے پہلے کا ہے، حالانکہ اس وقت آپ کے پاس عائشہ صدیقہ ؓ نہیں تھیں اور نہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیداری مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد ایک رات پیش آئی جیساکہ ایک روایت میں ہے :جب آپ بیدار ہوئے توحضرت عائشہ ؓ آپ کے پاس تھیں۔ (مسند أحمد 141/6) ترمذی ؒ کی روایت میں ہے :صحابہ کرام ؓ آپ کا پہرہ دیتے تھے،جب یہ آیت اتری:﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾’’اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ (المآئدة: 67/5) تو آپ نے پہرہ ختم کرادیا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث 3046) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن سے ہروقت محتاط رہنا چاہیے، نیز لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سربراہ کی حفاظت کریں تا کہ کوئی اچانک اسے اذیت نہ دے سکیں۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اسباب کی فراہمی توکل کے منافی نہیں کیونکہ توکل دل کا فعل ہے اور اسباب و ذرائع کا استعمال اعضاء وجوارح سے متعلق ہے۔ (فتح الباري: 101/6)
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار رہے جب مدینہ طیبہ پہنچے تو فرمایا: ’’ کاش!میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مراد آج رات ہماری پاسبانی کرے۔‘‘ پھر ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور آپ کی پاسبانی کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ محو استراحت ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے:رسول اللہ ﷺ اس رات آرام سے سوئے حتی کہ ہم نے آپ کےخراٹوں کی آواز سنی۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث 7231) 2۔ ظاہر روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ آنے سے پہلے کا ہے، حالانکہ اس وقت آپ کے پاس عائشہ صدیقہ ؓ نہیں تھیں اور نہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیداری مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد ایک رات پیش آئی جیساکہ ایک روایت میں ہے :جب آپ بیدار ہوئے توحضرت عائشہ ؓ آپ کے پاس تھیں۔ (مسند أحمد 141/6) ترمذی ؒ کی روایت میں ہے :صحابہ کرام ؓ آپ کا پہرہ دیتے تھے،جب یہ آیت اتری:﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾’’اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ (المآئدة: 67/5) تو آپ نے پہرہ ختم کرادیا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث 3046) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن سے ہروقت محتاط رہنا چاہیے، نیز لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سربراہ کی حفاظت کریں تا کہ کوئی اچانک اسے اذیت نہ دے سکیں۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اسباب کی فراہمی توکل کے منافی نہیں کیونکہ توکل دل کا فعل ہے اور اسباب و ذرائع کا استعمال اعضاء وجوارح سے متعلق ہے۔ (فتح الباري: 101/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبردی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبردی، کہا ہم کو عبداللہ بن ربیعہ بن عامر نے خبردی، کہا کہ میں نے عائشہ ؓ سے سنا، آپ بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک رات) بیداری میں گزاری، مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا، کاش! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک مرد ایسا ہوتا جو رات بھر ہمارا پہرہ دیتا! ابھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ہم نے ہتھیار کی جھنکار سنی۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ (آنے والے نے) کہا میں ہوں سعد بن ابی وقاص، آپ کا پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر نبی کریم ﷺ خوش ہوئے۔ ان کے لیے دعاء فرمائی اور آپ سوگئے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے خراٹے کی آواز سنی۔ ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ سے نکالا نبی اکرمﷺ چوکی پہرہ رکھتے تھے‘ جب یہ آیت اتری ﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾(المائدة: 67)( اللہ آپؐ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا) تو آپ ﷺ نے چوکی پہرہ اٹھا دیا۔ حاکم اور ابن ماجہ نے مرفوعاً نکالا۔ جہاد میں ایک رات چوکی پہرہ دینا ہزار راتوں کی عبادت اور ہزار دنوں کے روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) was vigilant one night and when he reached Medina, he said, "Would that a pious man from my companions guard me tonight!" Suddenly we heard the clatter of arms. He said, "Who is that? " He (The new comer) replied, " I am Sad bin Abi Waqqas and have come to guard you." So, the Prophet (ﷺ) slept (that night).