Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: A Junub person should perform ablution before sleeping)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
289.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا: آیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جب وضو کر لے۔‘‘
تشریح:
1۔ (تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ) سے مراد یہ ہے کہ نماز والا وضو کرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ادائے نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ نیز اس وضو سے مراد لغوی وضو نہیں، بلکہ شرعی وضو ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ وضو، وضوئے شرعی ہے اور اس وضو کی حکمت یہ ہے کہ اس سے حدث میں کمی آ جاتی ہے، خصوصاً جواز تفریق غسل کے قول پر یعنی ان حضرات کے قول پر جو غسل میں موالات ضروری خیال نہیں کرتے، لہٰذا اگر نیت غسل کر لے گا۔ تو اعضائے وضو سے تو رفع حدث ہو ہی جائے گا۔ اس کی تائید ابن ابی شیبہ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے رجال ثقہ ہیں کہ اگر کسی کو رات میں جنابت لاحق ہو اور وہ سونا چاہے تو وضو کر لے، کیونکہ وضو کرنا نصف غسل جنابت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 113/1) بعض نے یہ حکمت لکھی ہے کہ دو طہارتوں میں سے ایک طہارت کا حصول ہے اور اس بنا پر تیمم بھی وضو کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بیہقی میں باسناد حسن حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بحالت جنابت جب سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو یا تیمم کر لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیهقي:200/1) اگرچہ یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ آپ کا یہ تیمم پانی ملنے میں دشواری کی بنا پر ہو۔ بعض حضرات نے اس وضو کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ اس سے دوبارہ جماع کرنے یا غسل کرنے کے لیے نشاط پیدا ہو جاتا ہے۔ حافظ ابن دقیق العید ؒ نے امام شافعی ؒ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تخفیف حدث والا یہ وضو حائضہ کے لیے نہیں ہے، کیونکہ وہ تو غسل بھی کر لے تو بھی اس کا حدث رفع نہیں ہوتا۔ البتہ خون حیض کے منقطع ہونے پر وضو کا استحباب ہوگا کہ اگر وہ انقطاع خون کے بعد سونا چاہے تو وضو کر کے سو جائے، جس طرح جنبی کے لیے حکم ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غسل جنابت فوراً کرنا ضروری نہیں، البتہ نماز کا وقت آنے پر غسل سے حکم میں شدت آجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نیند کے وقت (تنظيف) (صفائی ستھرائی) مطلوب ہے۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ فرشتے میل کچیل، گندگی اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں اور شیاطین ان چیزوں کے قریب ہوتے ہیں اس لیے کم ازکم وضو کا حکم ہے تاکہ فرشتوں کا قرب اور شاطین سے دوری حاصل ہو۔ (فتح الباري:512/1) 2۔ جنبی جنابت کی حالت میں مختلف افعال بجا لاتا ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے اس پر مختلف احکام مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً بحالت جنابت چلنا پھرنا یا مبادی غسل کے طور پر کوئی کام کرنا اس قسم کے افعال وضو کے بغیر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی کراہت ہی کا پہلو ہے ان کے بعد کھانے پینے اور سونے کا درجہ ہے ان کے لیے جمہور نے طہارت صغری کو مستحب قراردیا ہے پھر دوسری مرتبہ جماع کرنے کا مرتبہ ہے اس کے لیے حدیث میں وضو کا حکم ہے اور اس کے متعلق امر کا صیغہ آیا ہے جو کہ یہاں وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب و ارشاد کے لیے ہے کیونکہ اس کا قرینہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان فرمائی ہےکہ اس طرح وضو کرنا دوبارہ جماع کے لیے زیادہ نشاط پیدا کرتا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے انھی الفاظ سے جمہور کے مسلک کے مطابق استحباب ہی پر استدلال کیا ہے۔ 3۔ بہرحال بحالت جنابت نیند سے پہلے وضو کرنا ضروری نہیں، بلکہ مستحب اور افضل ہے اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے غسل جنابت سے قبل سونے کے سوال پر فرمایا کہ ہاں سو سکتا ہے مگر وضو کرے اگر چاہے۔ ( صحیح ابن خزیمة: 106/1 ۔ حدیث:211)(إِن شَاءَ) کے الفاظ سے وجوب نہیں بلکہ استحباب ثابت ہو تا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
290
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
289
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
289
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
289
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
سابق عنوان مطلق تھا اب اس عنوان کو مقید لائے ہیں وہاں جنبی کے لیے سوجانے کا ثبوت پیش کرنا تھا۔ اس عنوان میں جنبی کے لیے وضو کرنے کو مقصد میں شامل کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے نبی ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا: آیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جب وضو کر لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ (تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ) سے مراد یہ ہے کہ نماز والا وضو کرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ادائے نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ نیز اس وضو سے مراد لغوی وضو نہیں، بلکہ شرعی وضو ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ وضو، وضوئے شرعی ہے اور اس وضو کی حکمت یہ ہے کہ اس سے حدث میں کمی آ جاتی ہے، خصوصاً جواز تفریق غسل کے قول پر یعنی ان حضرات کے قول پر جو غسل میں موالات ضروری خیال نہیں کرتے، لہٰذا اگر نیت غسل کر لے گا۔ تو اعضائے وضو سے تو رفع حدث ہو ہی جائے گا۔ اس کی تائید ابن ابی شیبہ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے رجال ثقہ ہیں کہ اگر کسی کو رات میں جنابت لاحق ہو اور وہ سونا چاہے تو وضو کر لے، کیونکہ وضو کرنا نصف غسل جنابت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 113/1) بعض نے یہ حکمت لکھی ہے کہ دو طہارتوں میں سے ایک طہارت کا حصول ہے اور اس بنا پر تیمم بھی وضو کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بیہقی میں باسناد حسن حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بحالت جنابت جب سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو یا تیمم کر لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیهقي:200/1) اگرچہ یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ آپ کا یہ تیمم پانی ملنے میں دشواری کی بنا پر ہو۔ بعض حضرات نے اس وضو کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ اس سے دوبارہ جماع کرنے یا غسل کرنے کے لیے نشاط پیدا ہو جاتا ہے۔ حافظ ابن دقیق العید ؒ نے امام شافعی ؒ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تخفیف حدث والا یہ وضو حائضہ کے لیے نہیں ہے، کیونکہ وہ تو غسل بھی کر لے تو بھی اس کا حدث رفع نہیں ہوتا۔ البتہ خون حیض کے منقطع ہونے پر وضو کا استحباب ہوگا کہ اگر وہ انقطاع خون کے بعد سونا چاہے تو وضو کر کے سو جائے، جس طرح جنبی کے لیے حکم ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غسل جنابت فوراً کرنا ضروری نہیں، البتہ نماز کا وقت آنے پر غسل سے حکم میں شدت آجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نیند کے وقت (تنظيف) (صفائی ستھرائی) مطلوب ہے۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ فرشتے میل کچیل، گندگی اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں اور شیاطین ان چیزوں کے قریب ہوتے ہیں اس لیے کم ازکم وضو کا حکم ہے تاکہ فرشتوں کا قرب اور شاطین سے دوری حاصل ہو۔ (فتح الباري:512/1) 2۔ جنبی جنابت کی حالت میں مختلف افعال بجا لاتا ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے اس پر مختلف احکام مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً بحالت جنابت چلنا پھرنا یا مبادی غسل کے طور پر کوئی کام کرنا اس قسم کے افعال وضو کے بغیر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی کراہت ہی کا پہلو ہے ان کے بعد کھانے پینے اور سونے کا درجہ ہے ان کے لیے جمہور نے طہارت صغری کو مستحب قراردیا ہے پھر دوسری مرتبہ جماع کرنے کا مرتبہ ہے اس کے لیے حدیث میں وضو کا حکم ہے اور اس کے متعلق امر کا صیغہ آیا ہے جو کہ یہاں وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب و ارشاد کے لیے ہے کیونکہ اس کا قرینہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان فرمائی ہےکہ اس طرح وضو کرنا دوبارہ جماع کے لیے زیادہ نشاط پیدا کرتا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے انھی الفاظ سے جمہور کے مسلک کے مطابق استحباب ہی پر استدلال کیا ہے۔ 3۔ بہرحال بحالت جنابت نیند سے پہلے وضو کرنا ضروری نہیں، بلکہ مستحب اور افضل ہے اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے غسل جنابت سے قبل سونے کے سوال پر فرمایا کہ ہاں سو سکتا ہے مگر وضو کرے اگر چاہے۔ ( صحیح ابن خزیمة: 106/1 ۔ حدیث:211)(إِن شَاءَ) کے الفاظ سے وجوب نہیں بلکہ استحباب ثابت ہو تا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے نافع سے، وہ عبداللہ بن عمر سے، کہا عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہم جنابت کی حالت میں سو سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں لیکن وضو کر کے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): 'Umar asked the Prophet (ﷺ) "Can anyone of us sleep while he is Junub?" He replied, "Yes, if he performs ablution."