Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: To go on a seavoyage)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2894.
حضرت انس ؓسے روایت ہے، ان سے ام حرام ؓنے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن ان کے گھرتشریف لا کر قیلولہ فرمایا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کس بات پر مسکرارہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت سے ایسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی جو جہاد کے لیے سمندر میں اس طرح جارہےتھے جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔‘‘ میں نےعرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ !اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی ان میں سے ہو۔‘‘ اس کے بعد پھر آپ سوگئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ آپ نے اس مرتبہ بھی وہی بات بتائی۔ ایسا دو یا تین مرتبہ ہوا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم پہلے لوگوں کے ساتھ ہوگی۔‘‘ چنانچہ انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت ؓسے نکاح کیا تو وہ انھیں بحری غزوے میں اپنے ساتھ لے گئے۔ واپسی کے وقت جب وہ سوار ہونے کے لیے اپنی سواری کے قریب ہوئیں تو سوار ہوتے ہی گر پڑیں، جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ گئیں (اور انھوں نے شہادت کی موت پائی)۔
تشریح:
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’جو انسان سمندر میں طغیانی کے وقت سفر کرے تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔۔اگر اسے نقصان ہوتو خود کو ملامت کرے۔‘‘ (مسند أحمد271/5 و سلسلة الأحادیث الصحیحة:472/2، حدیث 828) اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم نے سمندری سفر کو جائز قرارنہیں دیا۔ امام مالک ؒنے عورت کے لیے مطلق طور پر سمندر میں سفرکرنا ناجائز کہا ہے،حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ﴾’’وہی ذات ہے جو تمھیں خشکی اور سمندر میں سفرکرنے کی توفیق دیتی ہے۔‘‘ (یونس:22/10) امام بخاری ؒنےاس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کےلیے سمندر میں سفر کرنا جائز ہے اور اس میں مردوں اور عورتوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس طرح حج کے لیے بھی مردوں اور عورتوں کاسمندری سفر جائز ہے۔ دونوں روایات میں تطبیق یوں ہوگی کہ منع اس صورت میں ہے جب سمندر میں طغیانی ہویا بلاوجہ سفر ہو۔ جہاد کے لیے یا تجارتی مقاصد کے لیے سفر جائز ہوگا۔ اس حدیث میں صراحت ہے کہ ام حرام ؓنے جہاد کے لیے سمندری سفر کیا۔ یہ سفر حضرت عثمان ؓکے دور حکومت میں ہوا جب مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی کمان میں روم پرحملہ کرکے اسے فتح کیا۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے، ان سے ام حرام ؓنے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن ان کے گھرتشریف لا کر قیلولہ فرمایا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کس بات پر مسکرارہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی امت سے ایسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی جو جہاد کے لیے سمندر میں اس طرح جارہےتھے جیسے بادشاہ تخت پر فروکش ہوں۔‘‘ میں نےعرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ !اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی ان میں سے ہو۔‘‘ اس کے بعد پھر آپ سوگئے۔ جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ آپ نے اس مرتبہ بھی وہی بات بتائی۔ ایسا دو یا تین مرتبہ ہوا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم پہلے لوگوں کے ساتھ ہوگی۔‘‘ چنانچہ انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت ؓسے نکاح کیا تو وہ انھیں بحری غزوے میں اپنے ساتھ لے گئے۔ واپسی کے وقت جب وہ سوار ہونے کے لیے اپنی سواری کے قریب ہوئیں تو سوار ہوتے ہی گر پڑیں، جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ گئیں (اور انھوں نے شہادت کی موت پائی)۔
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’جو انسان سمندر میں طغیانی کے وقت سفر کرے تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔۔اگر اسے نقصان ہوتو خود کو ملامت کرے۔‘‘ (مسند أحمد271/5 و سلسلة الأحادیث الصحیحة:472/2، حدیث 828) اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم نے سمندری سفر کو جائز قرارنہیں دیا۔ امام مالک ؒنے عورت کے لیے مطلق طور پر سمندر میں سفرکرنا ناجائز کہا ہے،حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ﴾’’وہی ذات ہے جو تمھیں خشکی اور سمندر میں سفرکرنے کی توفیق دیتی ہے۔‘‘ (یونس:22/10) امام بخاری ؒنےاس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ جہاد کےلیے سمندر میں سفر کرنا جائز ہے اور اس میں مردوں اور عورتوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس طرح حج کے لیے بھی مردوں اور عورتوں کاسمندری سفر جائز ہے۔ دونوں روایات میں تطبیق یوں ہوگی کہ منع اس صورت میں ہے جب سمندر میں طغیانی ہویا بلاوجہ سفر ہو۔ جہاد کے لیے یا تجارتی مقاصد کے لیے سفر جائز ہوگا۔ اس حدیث میں صراحت ہے کہ ام حرام ؓنے جہاد کے لیے سمندری سفر کیا۔ یہ سفر حضرت عثمان ؓکے دور حکومت میں ہوا جب مسلمانوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کی کمان میں روم پرحملہ کرکے اسے فتح کیا۔۔۔ رضوان اللہ عنھم أجمعین ۔۔۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا اور ان سے ام حرام ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ نبی کریم ﷺ ایک دن ان کے گھر تشریف لاکر قیلولہ فرمایا تھا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟ فرمایا مجھے اپنی امت میں ایک ایسی قوم کو (خواب میں دیکھ کر) خوشی ہوئی جو سمندر میں (غزوہ کے لیے) اس طرح جارہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی وہ ان میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم بھی ان میں سے ہو۔ اس کے بعد پھر آپ سوگئے اور جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ آپ نے اس مرتبہ بھی وہی بات بتائی۔ ایسا دو یا تین دفعہ ہوا ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہوگی وہ حضرت عباہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھیں اور وہ ان کو (اسلام کے سب سے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ) غزوہ میں لے گئے، واپسی میں سوار ہونے کے لیے اپنی سواری سے قریب ہوئیں (سوار ہوتے ہوئے یا سوار ہونے کے بعد) گرپڑیں جس سے آپ کی گردن ٹوٹ گئی اور شہادت کی موت پائی۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اور اس پر نوٹ پیچھے لکھا جا چکا ہے یہاں مرحوم اقبال کا یہ شعر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Um Haram told me that the Prophet (ﷺ) one day took a midday nap in her house. Then he woke up smiling. Um Haram asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What makes you smile?" He replied "I was astonished to see (in my dream) some people amongst my followers on a sea-voyage looking like kings on the thrones." She said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Invoke Allah to make me one of them." He replied, "You are amongst them." He slept again and then woke up smiling and said the same as before twice or thrice. And she said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Invoke Allah to make me one of them." And he said, "You are amongst the first batch." 'Ubadahh bin As-Samit married her (i.e. Um Haram) and then he took her for Jihad. When she returned, an animal was presented to her to ride, but she fell down and her neck was broken.