Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The (leather) shield)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2907.
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے میں نے درخواست کی یا آپ نے از خود فرمایا: ’’تم دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں، تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کرلیا جبکہ میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرمارہے تھے: ’’اے بنو ارفدہ!کھیلتے رہو۔‘‘ حتیٰ کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: ’’بس تجھے کافی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: ’’اب چلی جاؤ۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں اہل حبشہ کا ڈھالوں اور برچھیوں سے کرتب دکھانے کا ذکر ہے۔ اس سے امام بخاری ؓنے ڈھال رکھنے کا جواز اور مشروعیت ثابت کی ہے۔ یہ بھی معلوم ہواکہ تاریخی اور جنگی کرتب دیکھنا جائز ہے۔ پردے کے ساتھ عورتیں بھی اس کا نظارہ کرسکتی ہیں اور یہ جنگی کرتب مسجد میں منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ 2۔پہلی حدیث سے بعض جدت پسند حضرات نے گانے بجانے کا جواز کشید کیا ہے حالانکہ ایک روایت میں ہے:’’وہ بچیاں معروف معنوں میں گلوکارہ نہیں تھیں۔‘‘(صحیح البخاري، العیدین، حدیث 952) اس وضاحت کے بعد گانے بجانے کے جواز پر اصرارکرنا صریح نصوص (قرآن وحدیث کے واضح احکام) سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ 3۔پہلی روایت کے آخر میں ہے:(فَلَمَّا غَفَلَ) ایک نسخے کے مطابق اسماعیل کی روایت میں (اِشتَغَلَ بِعَمَلِ) ہے۔ امام بخاری ؒنے اس دوسرے نسخے کا اعتبار کرتے ہوئے آخر میں وضاحت کی ہے کہ احمد کی روایت میں (عَمَلَ) کی جگہ (غَفَلَ)کے الفاظ ہیں۔ہم نے جس نسخے کو بنیاد بنایا ہے اس میں اسماعیل کی روایت میں بھی (غفل) کے الفاظ ہیں،اس لیے اس کی وضاحت کی ضرورت نہ رہی۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے میں نے درخواست کی یا آپ نے از خود فرمایا: ’’تم دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں، تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کرلیا جبکہ میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرمارہے تھے: ’’اے بنو ارفدہ!کھیلتے رہو۔‘‘ حتیٰ کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: ’’بس تجھے کافی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: ’’اب چلی جاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں اہل حبشہ کا ڈھالوں اور برچھیوں سے کرتب دکھانے کا ذکر ہے۔ اس سے امام بخاری ؓنے ڈھال رکھنے کا جواز اور مشروعیت ثابت کی ہے۔ یہ بھی معلوم ہواکہ تاریخی اور جنگی کرتب دیکھنا جائز ہے۔ پردے کے ساتھ عورتیں بھی اس کا نظارہ کرسکتی ہیں اور یہ جنگی کرتب مسجد میں منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ 2۔پہلی حدیث سے بعض جدت پسند حضرات نے گانے بجانے کا جواز کشید کیا ہے حالانکہ ایک روایت میں ہے:’’وہ بچیاں معروف معنوں میں گلوکارہ نہیں تھیں۔‘‘(صحیح البخاري، العیدین، حدیث 952) اس وضاحت کے بعد گانے بجانے کے جواز پر اصرارکرنا صریح نصوص (قرآن وحدیث کے واضح احکام) سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ 3۔پہلی روایت کے آخر میں ہے:(فَلَمَّا غَفَلَ) ایک نسخے کے مطابق اسماعیل کی روایت میں (اِشتَغَلَ بِعَمَلِ) ہے۔ امام بخاری ؒنے اس دوسرے نسخے کا اعتبار کرتے ہوئے آخر میں وضاحت کی ہے کہ احمد کی روایت میں (عَمَلَ) کی جگہ (غَفَلَ)کے الفاظ ہیں۔ہم نے جس نسخے کو بنیاد بنایا ہے اس میں اسماعیل کی روایت میں بھی (غفل) کے الفاظ ہیں،اس لیے اس کی وضاحت کی ضرورت نہ رہی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عید کے دن سوڈان کے کچھ صحابہ ڈھال اور حراب کا کھیل دکھا رہے تھے، اب یا میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے کہا یا آپ نے ہی فرمایا کہ تم بھی دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کرلیا، میرا چہرہ آپ ﷺ کے چہرہ پر تھا (اس طرح میں پیچھے پردے سے کھیل کو بخوبی دیکھ سکتی تھی) اور آپ ﷺ فر ما رہے تھے خوب بنوارفدہ! جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا بس؟ میں نے کہا جی ہاں، آپ نے فرمایا تو پھر جاو۔ احمد نے بیان کیا اور ان سے ابن وہب نے (ابوبکر ؓ کے آنے کے بعد دوسری طرف متوجہ ہو جانے کے لیے لفظ عمل کے بجائے) فلما غفل نقل کیا ہے۔ یعنی جب وہ ذرا غافل ہو گئے۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں کچھ صحابہ کے ڈھالوں اور برچھیوں سے جنگی کرتب دکھلانے کا ذکر ہے‘ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخی اور جنگی کرتبوں کا نظارہ دیکھنا جائز ہے‘ پردہ کے ساتھ عورتیں ایسے کھیل دیکھ سکتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was the day of 'Id when negroes used to play with leather shields and spears. Either I requested Allah's Apostle (ﷺ) or he himself asked me whether I would like to see the display. I replied in the affirmative. Then he let me stand behind him and my cheek was touching his cheek and he was saying, "Carry on, O Bani Arfida (i.e. negroes)!" When I got tired, he asked me if that was enough. I replied in the affirmative and he told me to leave.