باب: اس بارے میں کہ جب دونوں ختان ایک دوسرے سے مل جائیں تو غسل جنابت واجب ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: When male and female organs come in close contact (bath becomes compulsory))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
291.
حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جب مرد، عورت کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے، پھر کوشش شروع کر دے تو غسل واجب ہو جائے گا۔‘‘ اس حدیث کی متابعت عمرو بن مرزوق نے بواسطہ شعبہ (عن قتادہ) کی ہے۔ اور موسیٰ نے کہا: ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، انھوں نے قتادہ سے بیان کی، قتادہ نے حضرت حسن سے یہی روایت بیان کی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے بیان کردہ عنوان بڑے خاموش اور ٹھوس ہوتے ہیں، ان سے امام بخاری ؒ کی مراد کو سمجھنا آسان نہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا عنوان میں کوئی حکم بیان نہیں کیا۔ اس کی تعیین پیش کردہ حدیث پر غور و فکر کرنے کے بعد ہو گی۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب مرد اپنی عورت کے دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر عمل شروع کرے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس حدیث میں انزال کا ذکر نہیں، بلکہ کوشش کرنے کا ہے۔ گویا محض بیٹھنے سے بھی غسل واجب نہیں ہو گا، بلکہ اس کا انحصار جہد (کوشش) پر ہے جو دخول سے کنایہ ہے۔ دخول کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ اس وضاحت سے امام بخاری ؒ کے عنوان کی تعیین ہو جاتی ہے، کیونکہ مرد کے ختان کا عورت کے ختان سے التقاء غیوبت حشفہ کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ ختان اس مقام کا نام ہے، جہاں کٹاؤ ہوتا ہے اور عورت کے ختان کا مقام ذرا نیچے ہوتا ہے۔ عورت کے ختان کو خفاض کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں، عرب میں عورتوں کا ختنہ کیا جاتا ہے اور شادی سے پہلے کم ازکم دو تین مرتبہ ختنہ کرنا پڑتا ہے، اگرایسا نہ کیا جائے تو اس مقام پر محض کپڑے کی رگڑ سے شہوانی جذبات کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ افریقہ کے بعض دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ختنہ کے بجائے اس مقام پر ٹانکے لگا دیے جاتے ہیں۔ تاکہ شادی ہونے تک عورت کی عزت و ناموس محفوظ رہے، اسے’’عفت اجباری‘‘ کانام دیا جاتا ہے، شادی کے وقت ٹانکے کھول کر عورت کو خاوند کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلے کی مزید وضاحت فرماتی ہیں۔ ان کی بیان کردہ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب مرد کا ختنہ عورت کے ختنے کے مقام میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:216) ترمذی کی روایت میں ہے کہ میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے وظیفہ زوجیت ادا کیا، پھر ہم دونوں نے غسل کیا۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث:108) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ غسل جنابت میں مہاجرین اور انصارکے درمیان اختلاف ہوا تو میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور عرض کیا: اماں جان!میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے حیا آتی ہے، انھوں نے فرمایا:پوچھو! میں تیری حقیقی ماں کی طرح ہوں، میں نے دریافت کیا کہ غسل کب واجب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا دیا کہ جب خاوند اپنی بیوی کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنے سے لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:785۔ (349))رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اس نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ !ایک آدمی اپنی بیوی سے ہمبسترہوتا ہے، لیکن اسے انزال نہیں ہوتا کیا، ایسی حالت میں بیوی خاوند کو غسل کرنا ہو گا؟ حضرت عائشہ ؓ بھی آپ کے پاس بیٹھی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’میں اور یہ دونوں ایسا کرتے ہیں پھر غسل بھی کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:786۔ (350)) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غسل جنابت کے لیے انزال شرط نہیں، بلکہ دخول ہی کافی ہے۔ اولاً یہی امام بخاری ؒ کا موقف ہے، اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ باب میں کریں گے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ بعض اوقات کسی حدیث کے الفاظ کو عنوان میں رکھ دیتے ہیں، چونکہ وہ ان کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی، اس کی طرف اس انداز سے اشارہ کر دیتے ہیں۔ مذکورہ عنوان کے الفاظ امام بیہقی نے بیان کیے ہیں کہ جب خاوند بیوی کے ختنے آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے، لیکن ان کی بیان کردہ روایت میں ایک راوی علی بن زید ضعیف ہے۔ البتہ ابن ماجہ میں بیان شدہ حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ (فتح الباري:513/1) 3۔ عمرو بن مرزوق نے شعبہ سے بیان کرنے میں ہشام کی متابعت کی ہے، جسے فوائد عثمان بن احمد السماک میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ کی تعلیق کو اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قتادہ گو ثقہ راوی ہیں مگر ان پر تدلیس کا الزام ہے اور مذکورہ روایت کو انھوں نے "عن" سے بیان کیا ہے اور مدلس راوی کا کسی روایت کو عن سے بیان کرنا قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے امام بخاری ؒ کو اس متابعت میں تحدیث کی تصریح نقل کرنی پڑی۔ (فتح الباري:513/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
292
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
291
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
291
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
291
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
(اِلتِقَاءِخِتَانَين)سے مراد دخول یعنی غیوبت حشفہ ہے محض التقا سے تو کسی نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جب مرد، عورت کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے، پھر کوشش شروع کر دے تو غسل واجب ہو جائے گا۔‘‘ اس حدیث کی متابعت عمرو بن مرزوق نے بواسطہ شعبہ (عن قتادہ) کی ہے۔ اور موسیٰ نے کہا: ہم سے ابان نے حدیث بیان کی، انھوں نے قتادہ سے بیان کی، قتادہ نے حضرت حسن سے یہی روایت بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کے بیان کردہ عنوان بڑے خاموش اور ٹھوس ہوتے ہیں، ان سے امام بخاری ؒ کی مراد کو سمجھنا آسان نہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا عنوان میں کوئی حکم بیان نہیں کیا۔ اس کی تعیین پیش کردہ حدیث پر غور و فکر کرنے کے بعد ہو گی۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب مرد اپنی عورت کے دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر عمل شروع کرے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس حدیث میں انزال کا ذکر نہیں، بلکہ کوشش کرنے کا ہے۔ گویا محض بیٹھنے سے بھی غسل واجب نہیں ہو گا، بلکہ اس کا انحصار جہد (کوشش) پر ہے جو دخول سے کنایہ ہے۔ دخول کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ اس وضاحت سے امام بخاری ؒ کے عنوان کی تعیین ہو جاتی ہے، کیونکہ مرد کے ختان کا عورت کے ختان سے التقاء غیوبت حشفہ کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ ختان اس مقام کا نام ہے، جہاں کٹاؤ ہوتا ہے اور عورت کے ختان کا مقام ذرا نیچے ہوتا ہے۔ عورت کے ختان کو خفاض کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں، عرب میں عورتوں کا ختنہ کیا جاتا ہے اور شادی سے پہلے کم ازکم دو تین مرتبہ ختنہ کرنا پڑتا ہے، اگرایسا نہ کیا جائے تو اس مقام پر محض کپڑے کی رگڑ سے شہوانی جذبات کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ افریقہ کے بعض دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ختنہ کے بجائے اس مقام پر ٹانکے لگا دیے جاتے ہیں۔ تاکہ شادی ہونے تک عورت کی عزت و ناموس محفوظ رہے، اسے’’عفت اجباری‘‘ کانام دیا جاتا ہے، شادی کے وقت ٹانکے کھول کر عورت کو خاوند کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلے کی مزید وضاحت فرماتی ہیں۔ ان کی بیان کردہ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب مرد کا ختنہ عورت کے ختنے کے مقام میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:216) ترمذی کی روایت میں ہے کہ میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے وظیفہ زوجیت ادا کیا، پھر ہم دونوں نے غسل کیا۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث:108) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ غسل جنابت میں مہاجرین اور انصارکے درمیان اختلاف ہوا تو میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور عرض کیا: اماں جان!میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے حیا آتی ہے، انھوں نے فرمایا:پوچھو! میں تیری حقیقی ماں کی طرح ہوں، میں نے دریافت کیا کہ غسل کب واجب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا دیا کہ جب خاوند اپنی بیوی کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنے سے لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:785۔ (349))رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اس نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ !ایک آدمی اپنی بیوی سے ہمبسترہوتا ہے، لیکن اسے انزال نہیں ہوتا کیا، ایسی حالت میں بیوی خاوند کو غسل کرنا ہو گا؟ حضرت عائشہ ؓ بھی آپ کے پاس بیٹھی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’میں اور یہ دونوں ایسا کرتے ہیں پھر غسل بھی کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:786۔ (350)) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غسل جنابت کے لیے انزال شرط نہیں، بلکہ دخول ہی کافی ہے۔ اولاً یہی امام بخاری ؒ کا موقف ہے، اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ باب میں کریں گے۔ 2۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ بعض اوقات کسی حدیث کے الفاظ کو عنوان میں رکھ دیتے ہیں، چونکہ وہ ان کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی، اس کی طرف اس انداز سے اشارہ کر دیتے ہیں۔ مذکورہ عنوان کے الفاظ امام بیہقی نے بیان کیے ہیں کہ جب خاوند بیوی کے ختنے آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے، لیکن ان کی بیان کردہ روایت میں ایک راوی علی بن زید ضعیف ہے۔ البتہ ابن ماجہ میں بیان شدہ حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ (فتح الباري:513/1) 3۔ عمرو بن مرزوق نے شعبہ سے بیان کرنے میں ہشام کی متابعت کی ہے، جسے فوائد عثمان بن احمد السماک میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ کی تعلیق کو اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قتادہ گو ثقہ راوی ہیں مگر ان پر تدلیس کا الزام ہے اور مذکورہ روایت کو انھوں نے "عن" سے بیان کیا ہے اور مدلس راوی کا کسی روایت کو عن سے بیان کرنا قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے امام بخاری ؒ کو اس متابعت میں تحدیث کی تصریح نقل کرنی پڑی۔ (فتح الباري:513/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
دوسری سند سے امام بخاری نے فرمایا کہ ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، وہ ہشام سے، وہ قتادہ سے، وہ امام حسن بصری سے، وہ ابو رافع سے، وہ ابوہریرہ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ جماع کے لئے کوشش کی تو غسل واجب ہو گیا، اس حدیث کی متابعت عمرو نے شعبہ کے واسطہ سے کی ہے اور موسی نے کہا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بصری نے بیان کیا۔ اسی حدیث کی طرح۔ ابو عبداللہ (امام بخاری) نے کہا یہ حدیث اس باب کی تمام احادیث میں عمدہ اور بہتر ہے اور ہم نے دوسری حدیث (عثمان اور ابن ابی کعب کی) صحابہ کے اختلاف کے پیش نظر بیان کی اور غسل میں اختیاط زیادہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
قال النووي:'' وَمَعْنَى الْحَدِيثِ أَنَّ إِيجَابَ الْغُسْلِ لَا يَتَوَقَّفُ عَلَى نُزُولِ الْمَنِيِّ بَلْ مَتَى غَابَتِ الْحَشَفَةُ فِي الْفَرْجِ وَجَبَ الْغُسْلُ عَلَى الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ وَهَذَا لَا خِلَافَ فِيهِ الْيَوْمَ۔ ''(شرح النووي على مسلم:40/4) امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ غسل انزال منی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی دخول ہوگیا دونوں پر غسل واجب ہو گیا۔ اور اب اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہ طریقہ مناسب نہیں :
فقہی مسالک میں کوئی مسلک اگرکسی جزئی میں کسی حدیث سے مطابق ہوجائے تو قابل قبول ہے۔ کیونکہ اصل معمول بہ قرآن وحدیث ہے۔ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے فرما دیا ہے کہ إذا صح الحدیث فهومذهبي۔ ’’جو بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو وہی میرا مذہب ہے۔‘‘ یہاں تک درست اور قابل تحسین ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ مقلدین اپنے مذہب کو کسی حدیث کے مطابق پاتے ہیں تو اپنے مسلک کو مقدم ظاہر کرتے ہوئے، حدیث کو مؤخر کرتے ہیں اور اپنے مسلک کی صحت و اولویت پر اس طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ گویا اولین مقام ان کے مزعومہ مسلک کا ہے اور احادیث کا مقام ان کے بعد ہے۔ ہمارے اس بیان کی تصدیق کے لیے موجودہ تراجم احادیث خاص طور پر تراجم بخاری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جو آج کل ہمارے برادران احناف کی طرف سے شائع ہورہے ہیں۔ قرآن وحدیث کی عظمت کے پیش نظر یہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ جب کہ یہ تسلیم کیے بغیر کسی بھی منصف مزاج کو چارہ نہیں کہ ہمارے مروجہ مسالک بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ جن کا قرون راشدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ بقول حضرت شاہ ولی اللہ ؒ پورے چار سو سال تک مسلمان صرف مسلمان تھے۔ تقلیدی مذاہب چارصدیوں کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی حقیقت یہی ہے۔ امت کے لیے یہ سب سے بڑی مصیبت ہے کہ ان فقہی مسالک کو عليحدہ عليحدہ دین اور شریعت کا مقام دے دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ افتراق وانتشار پیدا ہوا کہ اسلام مختلف پارٹیوں اور بہت سے فرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا اور وحدت ملی ختم ہوگئی۔ اور آج تک یہی حال ہے۔ جس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ دعوت اہل حدیث کا خلاصہ یہی ہے کہ اس انتشار کو ختم کر کے مسلمانوں کو صرف اسلام کے نام پر جمع کیا جائے، امید قوی ہے کہ ضروریہ دعوت اپنا رنگ لائے گی۔ اور لا رہی ہے کہ اکثر روشن دماغ مسلمان ان خود ساختہ پابندیوں کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "When a man sits in between the four parts of a woman and did the sexual intercourse with her, bath becomes compulsory."