باب : جس نے سفر میں دوپہر کے آرام کے وقت اپنی تلوار درخت سے لٹکائی
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Whoever hung his sword on a tree at midday nap)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2910.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ واپس لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام ؓ بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤکیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سوگئے۔ اس دوران ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ وہ ہمیں پکار رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔‘‘ اس نے مجھے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: ’’اللہ۔‘‘ اورآپ نے اسے کوئی سزا نہ دی اور وہ بیٹھ گیا۔
تشریح:
1۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ پر تلوار سونتنے والے شخص کا نام غورث بن حارث تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4136) 2۔امام بیہقی ؒ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جواب سن کر اس دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی رسول اللہ ﷺنے پکڑ کر فرمایا:’’اب مجھ سے تجھے کون بچائے گا۔‘‘ اس نے کہا: مجھے آپ سے اچھے برتاؤ کی امید ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اسلام قبول کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا:اسلام تو قبول نہیں کرتا البتہ آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ سے قتال نہیں کروں گا۔ اور نہ آپ سے قتال کرنے والوں کا ساتھ ہی دوں گا۔ تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا:میں لوگوں میں سے بہتر شخص کے پاس آیا ہوں۔ (دلائل النبوة للبیهقي:456/3) 3۔اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہتھیاروں سے غافل نہیں ہو نا چاہیے ہاں اگر حالات اتنے سنگین نہ ہوں تو مجاہد اپنا اسلحہ وغیرہ قریب رکھ کر خود آرام کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ واپس لوٹے۔ راستے میں قیلولے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خاردار (ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ کرام ؓ بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑاؤکیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سوگئے۔ اس دوران ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ وہ ہمیں پکار رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں سویا ہوا تھا اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔‘‘ اس نے مجھے کہا: تمھیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: ’’اللہ۔‘‘ اورآپ نے اسے کوئی سزا نہ دی اور وہ بیٹھ گیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ پر تلوار سونتنے والے شخص کا نام غورث بن حارث تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4136) 2۔امام بیہقی ؒ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جواب سن کر اس دیہاتی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی رسول اللہ ﷺنے پکڑ کر فرمایا:’’اب مجھ سے تجھے کون بچائے گا۔‘‘ اس نے کہا: مجھے آپ سے اچھے برتاؤ کی امید ہے۔ آپ نے فرمایا:’’اسلام قبول کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا:اسلام تو قبول نہیں کرتا البتہ آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ سے قتال نہیں کروں گا۔ اور نہ آپ سے قتال کرنے والوں کا ساتھ ہی دوں گا۔ تو آپ نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا:میں لوگوں میں سے بہتر شخص کے پاس آیا ہوں۔ (دلائل النبوة للبیهقي:456/3) 3۔اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہتھیاروں سے غافل نہیں ہو نا چاہیے ہاں اگر حالات اتنے سنگین نہ ہوں تو مجاہد اپنا اسلحہ وغیرہ قریب رکھ کر خود آرام کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبردی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے سنان بن ابی سنان الدولی اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور انہیں جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے۔ جب حضور اکرم ﷺ جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس وادی میں پڑاو کیا اور صحابہ پوری وادی میں (درخت کے سائے کے لیے) پھیل گئے۔ آپ ﷺ نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی۔ ہم سب سوگئے تھے کہ آں حضرت ﷺ کے پکارنے کی آواز سنائی دی، دیکھا گیا تو ایک بدوی آپ ﷺ کے پاس تھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! تین مرتبہ (میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی) حضور اکرم ﷺ نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ ﷺ بیٹھ گئے۔ (پھر وہ خود متاثر ہو کر اسلام لائے)
حدیث حاشیہ:
ابن اسحاق نے مغازی میں یوں روایت کیا ہے کہ کافروں نے اس گنوار سے جس کا نام دعثور تھا‘ یہ کہا کہ اس وقت محمد (ﷺ) اکیلے ہیں اور موقع اچھا ہے۔ چنانچہ وہ آپﷺ کی تلوار لے کر آپﷺ کے سرہانے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ اب آپﷺ کو کون بچائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا میرا بچانے والا اللہ ہے۔ آپﷺ نے یہ فرمایا ہی تھا کہ فوراً حضرت جبرائیل تشریف لائے اور اس گنوار کے سینے پر ایک گھونسا مارا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی‘ جو آپﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا کہ اب تجھ کو کون بچائے گا اس نے کہا کوئی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin Abdullah (RA): That he proceeded in the company of Allah's Apostle (ﷺ) towards Najd to participate in a Ghazwa. (Holy-battle) When Allah's Apostle (ﷺ) returned, he too returned with him. Midday came upon them while they were in a valley having many thorny trees. Allah's Apostle (ﷺ) and the people dismounted and dispersed to rest in the shade of the trees. Allah's Apostle (ﷺ) rested under a tree and hung his sword on it. We all took a nap and suddenly we heard Allah's Apostle (ﷺ) calling us. (We woke up) to see a bedouin with him. The Prophet (ﷺ) said, "This bedouin took out my sword while I was sleeping and when I woke up, I found the unsheathed sword in his hand and he challenged me saying, 'Who will save you from me?' I said thrice, 'Allah.' The Prophet (ﷺ) did not punish him but sat down.