Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Setting out in the last part of the month)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور کریب نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ ( حجۃ الوداع کے لیے ) مدینہ سے اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور چار ذی الحج کو مکہ پہنچ گئے تھے ۔
2952.
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (جج کے لیے) اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ اس وقت حج کے علاوہ ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا۔ جب ہم مکےکےقریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ جب بیت اللہ کے طواف اور صفاو مروہ کی سعی سے فارغ ہو تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو ہمارے ہاں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے دریافت کیا: یہ گوشت کیسا ہے؟ ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے (یہ اس کا گوشت ہے۔ ) -
تشریح:
1۔بعض جاہل لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مہینے کے آغاز میں سفرکرنا چاہیے ،مہینے کے آخر میں سفر کرنا نحوست کا باعث ہے۔امام بخاری ؒ نے اس غلط عقیدے کی تردید کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفرحج کے لیے ماہ ذی القعدہ کے آخر میں روانہ ہوئے۔اگراس وقت سفر کرنا منحوس ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے۔اس سفر کا تعلق اگرچہ حج سے ہے مگر جہاد کے سفر کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ 2۔حسب موقع اگر مہینے کے آخر میں سفر جہاد کے لیے نکلنا پڑے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال یہ امام اور فوج کے قائد کی صوابدید پر موقوف ہے۔اگرمہینے کے آخری دنوں میں سفر کرنے کا موقع ملے تو یہ مزید بہتر ہوگا کیونکہ سنت پر عمل ہوسکے گا۔ واللہ أعلم۔
اور کریب نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ ( حجۃ الوداع کے لیے ) مدینہ سے اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے اور چار ذی الحج کو مکہ پہنچ گئے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (جج کے لیے) اس وقت روانہ ہوئے جب ذوالقعدہ کے پانچ دن باقی تھے۔ اس وقت حج کے علاوہ ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا۔ جب ہم مکےکےقریب ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو وہ جب بیت اللہ کے طواف اور صفاو مروہ کی سعی سے فارغ ہو تو احرام کھول دے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ دس ذوالحجہ کو ہمارے ہاں گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے دریافت کیا: یہ گوشت کیسا ہے؟ ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کی طرف سے گائے کی قربانی دی ہے (یہ اس کا گوشت ہے۔ ) -
حدیث حاشیہ:
1۔بعض جاہل لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مہینے کے آغاز میں سفرکرنا چاہیے ،مہینے کے آخر میں سفر کرنا نحوست کا باعث ہے۔امام بخاری ؒ نے اس غلط عقیدے کی تردید کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفرحج کے لیے ماہ ذی القعدہ کے آخر میں روانہ ہوئے۔اگراس وقت سفر کرنا منحوس ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے۔اس سفر کا تعلق اگرچہ حج سے ہے مگر جہاد کے سفر کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ 2۔حسب موقع اگر مہینے کے آخر میں سفر جہاد کے لیے نکلنا پڑے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال یہ امام اور فوج کے قائد کی صوابدید پر موقوف ہے۔اگرمہینے کے آخری دنوں میں سفر کرنے کا موقع ملے تو یہ مزید بہتر ہوگا کیونکہ سنت پر عمل ہوسکے گا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ سے(جج کے لیے اس وقت) روانہ ہوئے جب ذوالقعدہ کے پانچ دن رہ گئے تھے اور مکے اس وقت پہنچے جب ذوالحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے ، ان سے یحییٰ بن سعید نے ، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ مدینہ سے ( حجۃ الوداع کے لیے ) رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہم اس وقت نکلے جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے ۔ ہفتہ کے دن ہمارا مقصد حج کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا ۔ جب ہم مکہ سے قریب ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو جب وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو احرام کھول دے ۔ ( پھر حج کے لیے بعد میں احرام باندھے ) حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ دسویں ذی الحجہ کو ہمارے یہاں گائے کا گوشت آیا ، میں نے پوچھا کہ گوشت کیسا ہے ؟ تو بتایا گیا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے جو گائے قربانی کی ہے یہ اسی کا گوشت ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی آنحضرتﷺ کے سفر حج مبارک کا ذکر ہے کہ آپﷺ آخر ماہ میں اس کے لئے نکلے اور یہ موقع بھی ایسا ہی تھا۔ پس جہاد کے لئے بھی امام جیسا موقع دیکھے سفر شروع کرے۔ اگر مہینہ کے آخری دنوں میں نکلنے کا موقع مل سکے تو یہ اور بہتر ہوگا کہ سنت نبوی پر عمل ہوسکے گا۔ بہرحال یہ امام کی صواب دید پر ہے۔ روایت میں حضرت امام مالک ؒ کا نام آیا ہے‘ جن کا نام مالک بن انس بن مالک بن عامر اصجی ہے۔ ابو عبداللہ کنیت ہے‘ إمام دارلحجرة و أمیر المؤمنین في الحدیث کے لقب سے مشہور ہیں ان کے دادا عامر اصجی صحابی ہیں جو بدر کے سوا تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ امام صاحب ۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔ تبع تابعین میں سے ہیں۔ اگرچہ مدینہ مولد و مسکن تھا مگر کسی صحابی کے دیدار سے مشرف نہیں ہوئے۔ یہ شرف کیا کم ہے کہ إمام دار الھجرة تھے۔ حرم محترم نبیﷺ کے مدرس و مفتی نافع ربیعہ رائی‘ امام جعفر صادق اور ابو حازم وغیرہ بہت شیوخ سے علم حاصل کیا جن کی تعداد نو سو بیان کی گئی ہے۔ نافع نے وفات پائی تو امام صاحب ان کے جانشین ہوئے‘ اس وقت آپ کی سترہ سال کی عمر تھی۔ امام صاحب کی جائے سکونت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا مکان اور نشست گاہ حضرت عمر ؓ کا مکان تھا۔ امام صاحب کی مجلس درس نہایت آراستہ وپیراستہ ہوتی تھی۔ سب لوگ مؤدب بیٹھتے تھے‘ امام صاحب غسل کرکے خوشبو لگا کر عمدہ لباس پہن کر نہایت وقار و متانت سے بیٹھتے تھے‘ خلیفہ ہارون رشید خود حاضر درس ہوتا تھا‘ عالم شرق سے غرب تک امام صاحب کے آوازہ شہرت سے گونج اٹھا۔ شیخ عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے کہ روئے زمین پر مالک سے بڑھ کر کوئی حدیث نبوی کا امانت دار نہیں۔ امام صاحب نے ایک لاکھ حدیثیں لکھی تھیں ان کا انتخاب مؤطا ہے (مقدمہ شرح مؤطا) امام صاحب سخی و عابد و مرتاض تھے۔ اہل علم کی بہت مدد کرتے تھے‘ امام شافعیؒ کو گیارہ ہزار دیتے تھے‘ امام صاحب کے اصطبل میں بہت سے گھوڑے تھے مگر کبھی گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ میں نہ نکلتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ جو زمین رسول کریمﷺ کے قدم مبارک سے مشرف ہوئی ہے اس کو میں جانوروں کے سموں سے روندوں۔ امام صاحب کے تلامذہ کی تعداد تیرہ سو ہے‘ ان میں بڑے بڑے ائمہ اور محدثین اور امراء شامل ہیں۔ مالکی مذہب کی پیروی کرنے والے عرب اور شمالی افریقہ میں ہیں۔ امام مالک کی بہت سی تصانیف ہیں زیادہ مشہور مؤطا ہے۔ کتاب المسائل ہیں۔ خلیفہ ابو العباس سفاح کے سامنے بہت سے منتشر اوراق پڑھے تھے جن کے متعلق خلیفہ نے کہا کہ یہ امام مالک کے ستر ہزار مسائل کا مجموعہ ہے۔ (تزئین المالك) جس حدیث کا سلسلہ روایت مالک عن نافع عن ابن عمر ہوگا‘ اس کو سلسلۃ الذہب کہتے ہیں۔ جعفر گورنر مدینہ نے امام صاحب کو حکم دیا کہ آئندہ طلاق (جبری) کا فتویٰ نہ دیا کریں‘ امام صاحب کو کتمان حق گوارا نہ ہوا۔ تعمیل حکم نہ کی‘ جعفر نے غضب ناک ہو کر ستر کوڑے لگوائے۔ تمام پیٹھ خون آلود ہوگئی‘ دونوں ہاتھ مونڈھوں سے اتر گئے۔ خلیفہ منور جب مدینہ آیا تو امام صاحب سے عذر کیا اور کہا مجھ کو آپ کی تعزیر کا علم نہیں۔ میں جعفر کو سزا دوں گا۔ امام صاحب نے فرمایا میں نے معاف کیا‘ ۱۷۹ھ میں وفات پائی‘ ابن مبارک و یحییٰ قطان ان کے شاگرد تھے۔ امام صاحب اپنے اس شعر کو اکثر پڑھا کرتے تھے جس میں انہوں نے ایک حدیث کے مضمون کو لیا ہے۔ خیر الأمور الدین ما کان سنته وشر الأمور المحدثات البدایع
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): We set out in the company of Allah's Apostle (ﷺ) five days before the end of Dhul Qa'da intending to perform Hajj only. When we approached Makkah Allah's Apostle (ﷺ) ordered those who did not have the Hadi (i.e. an animal for sacrifice) with them, to perform the Tawaf around the Ka’bah, and between Safa and Marwa and then finish their Ihram. Beef was brought to us on the day of (i.e. the days of slaughtering) and I asked, "What is this?" Somebody said, Allah's Apostle (ﷺ) has slaughtered (a cow) on behalf of his wives."