باب : اگر کوئی جہاد میں سے لوٹنا چاہے یا جہاد میں نہ جانا چاہے تو امام سے اجازت لے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Asking the permission of the Imam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں کہ ” بے شک مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب وہ اللہ کے رسول کے ساتھ کسی جہاد کے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر ان کے یہاں سے چلے نہیں جاتے ۔ بے شک وہ لوگ جو آپ سے اجازت لیتے ہیں “ ۔ آخر آیت تک ۔
2967.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: ’’تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔‘‘ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط کی کہ مدینہ طیبہ پہنچنے تک اس پر سواری کروں گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے حال ہی میں شادی کی ہے، اس لیے مجھے پہلے جانے کی اجازت دیں تو آپ نے مجھے اجازت دے دی، چنانچہ میں مدینہ طیبہ جانے کے لیے لوگوں کے آگے آگے ہوا۔ جب میں مدینہ طیبہ پہنچا تو میرے ماموں نے اونٹ کے متعلق دریافت کیا۔ میں نے جو کچھ واقعہ ہوا تھا ان سے بیان کیا تو انھوں نے مجھے ملامت کی۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی تھی تو آپ نے مجھے فرمایا: ’’ کیا تم نے کنواری سے شادی کی ہے یا کسی بیوہ سے؟‘‘ میں نے عرض کیا: شادی شدہ سے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی، تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی ؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرے والد گرامی فوت ہوگئے یا شہید ہوگئے اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں تو میں نے ان جیسی لڑکی سے نکاح کرنا اچھا نہ سمجھا جو نہ تو انھیں ادب سکھا سکے اور نہ ان کا انتظام کر سکے، اس لیے میں نے ایک بیوہ سے نکاح کیا ہے جو ان کا انتظام بھی کرے اور انھیں ادب بھی سکھائے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میں صبح سویرے آپ کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس کی قیمت بھی ادا کردی اور اونٹ بھی مجھے واپس کردیا۔ (راوی حدیث) مغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ادائیگی کی بہتر صورت ہے۔ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
تشریح:
1۔مذکورہ آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ کسی کو لشکر سے جانے کی اجازت نہیں جب تک وہ امیر سے اجازت طلب نہ کرے، خاص طور پر، اگر امیر نے کسی کی ڈیوٹی لگائی ہوپھر اسے کوئی ضرورت لاحق ہوتو اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث کے مطابق حضرت جابر ؓ نے ایک ’’ہنگامی ضرورت‘‘ کے پیش نظر رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کی۔ رسول اللہ ﷺسے اجازت ملنے پر وہ جلدی گھر آگئے۔ 2۔واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کا گھر مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلے پر عوالی مدینہ میں تھا۔ وہاں ان کے اہل وعیال رہتے تھے جن کاتعلق بنو سلمہ سے تھا۔ حضرت جابر ؓ آپ سے پہلے وہاں پہنچے، بعد ازاں دوسری صبح مسجد نبوی میں آئے اور اونٹ رسول اللہ ﷺ کے حوالے کیا۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں کہ ” بے شک مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب وہ اللہ کے رسول کے ساتھ کسی جہاد کے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر ان کے یہاں سے چلے نہیں جاتے ۔ بے شک وہ لوگ جو آپ سے اجازت لیتے ہیں “ ۔ آخر آیت تک ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: ’’تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔‘‘ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط کی کہ مدینہ طیبہ پہنچنے تک اس پر سواری کروں گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے حال ہی میں شادی کی ہے، اس لیے مجھے پہلے جانے کی اجازت دیں تو آپ نے مجھے اجازت دے دی، چنانچہ میں مدینہ طیبہ جانے کے لیے لوگوں کے آگے آگے ہوا۔ جب میں مدینہ طیبہ پہنچا تو میرے ماموں نے اونٹ کے متعلق دریافت کیا۔ میں نے جو کچھ واقعہ ہوا تھا ان سے بیان کیا تو انھوں نے مجھے ملامت کی۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی تھی تو آپ نے مجھے فرمایا: ’’ کیا تم نے کنواری سے شادی کی ہے یا کسی بیوہ سے؟‘‘ میں نے عرض کیا: شادی شدہ سے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی، تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی ؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرے والد گرامی فوت ہوگئے یا شہید ہوگئے اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں تو میں نے ان جیسی لڑکی سے نکاح کرنا اچھا نہ سمجھا جو نہ تو انھیں ادب سکھا سکے اور نہ ان کا انتظام کر سکے، اس لیے میں نے ایک بیوہ سے نکاح کیا ہے جو ان کا انتظام بھی کرے اور انھیں ادب بھی سکھائے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میں صبح سویرے آپ کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس کی قیمت بھی ادا کردی اور اونٹ بھی مجھے واپس کردیا۔ (راوی حدیث) مغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ادائیگی کی بہتر صورت ہے۔ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔مذکورہ آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ کسی کو لشکر سے جانے کی اجازت نہیں جب تک وہ امیر سے اجازت طلب نہ کرے، خاص طور پر، اگر امیر نے کسی کی ڈیوٹی لگائی ہوپھر اسے کوئی ضرورت لاحق ہوتو اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث کے مطابق حضرت جابر ؓ نے ایک ’’ہنگامی ضرورت‘‘ کے پیش نظر رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کی۔ رسول اللہ ﷺسے اجازت ملنے پر وہ جلدی گھر آگئے۔ 2۔واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کا گھر مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلے پر عوالی مدینہ میں تھا۔ وہاں ان کے اہل وعیال رہتے تھے جن کاتعلق بنو سلمہ سے تھا۔ حضرت جابر ؓ آپ سے پہلے وہاں پہنچے، بعد ازاں دوسری صبح مسجد نبوی میں آئے اور اونٹ رسول اللہ ﷺ کے حوالے کیا۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "مومن تو صرف وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اور جب وہ اس کے ساتھ کسی اجتماعی کام پر ہوتے ہیں تو آپ سے اجازت لیے بغیر نہیں جاتے۔ بے شک جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ ۔ ۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ تبوک) میں شریک تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پیچھے سے آکر میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنے پانی لادنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا۔ چونکہ وہ تھک چکا تھا، اس لیے دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر! تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ تھک گیا ہے۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی۔ پھر تو وہ برابر دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، اپنے اونٹ کے متعلق کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا کہ اب اچھا ہے۔ آپ کی برکت سے ایسا ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر کیا اسے بیچو گے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں شرمندہ ہو گیا، کیوں کہ ہمارے پاس پانی لانے کو اس کے سوا اور کوئی اونٹ نہیں رہا تھا۔ مگر میں نے عرض کیا، جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا پھر بیچ دے۔ چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپ ﷺ کو بیچ دیا اور یہ طے پایا کہ مدینہ تک میں اسی پر سوار ہو کر جاوں گا۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ میں نے آپ ﷺ سے (آگے بڑھ کر اپنے گھر جانے کی) اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے اجازت عنایت فر ما دی۔ اس لیے میں سب سے پہلے مدینہ پہنچ آیا۔ جب ماموں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے متعلق پوچھا۔ جو معاملہ میں کر چکا تھا اس کی انہیں اطلاع دی۔ تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ (ایک اونٹ تھا تیرے پاس وہ بھی بیچ ڈالا اب پانی کس پر لائے گا) جب میں نے حضور اکرم ﷺ سے اجازت چاہی تھی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا تھا بیوہ سے اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی، وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے۔ (کیوں کہ حضرت جابر ؓ بھی ابھی کنوارے تھے) میں نے کہا یارسول اللہ! میرے باپ کی وفات ہو گئی ہے یا (یہ کہا کہ) وہ (احد) میں شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں۔ اس لیے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ انہیں جیسی کسی لڑکی کو بیاہ کے لاوں، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے نہ ان کی نگرانی کر سکے۔ اس لیے میں نے بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور انہیں ادب سکھائے۔ انہوں نے بیان کیا، پھر جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے تو صبح کے وقت میں اسی اونٹ پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے مجھے اس اونٹ کی قیمت عطا فرمائی اور پھر وہ اونٹ بھی واپس کردیا۔ مغیرہ راوی ؓ نے کہا کہ ہمارے نزدیک بیع میں یہ شرط لگانا اچھا ہے کچھ برا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہاں سے نکلا کہ حضرت جابر ؓاجازت لے کر آپ ﷺ سے جدا ہوئے۔ یہ حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امامؒ نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): I participated in a Ghazwa along with Allah's Apostle (ﷺ) The Prophet (ﷺ) met me (on the way) while I was riding a camel of ours used for irrigation and it had got so tired that it could hardly walk. The Prophet (ﷺ) asked me, "What is wrong with the camel?" I replied, "It has got tired." So. Allah's Apostle (ﷺ) came from behind it and rebuked it and prayed for it so it started surpassing the other camels and going ahead of them. Then he asked me, "How do you find your camel (now)?" I replied, "I find it quite well, now as it has received your blessings." He said, "Will you sell it to me?" I felt shy (to refuse his offer) though it was the only camel for irrigation we had. So, I said, "Yes." He said, "Sell it to me then." I sold it to him on the condition that I should keep on riding it till I reached Medina. Then I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I am a bridegroom," and requested him to allow me to go home. He allowed me, and I set out for Madinah before the people till I reached Medina, where I met my uncle, who asked me about the camel and I informed him all about it and he blamed me for that. When I took the permission of Allah's Apostle (ﷺ) he asked me whether I had married a virgin or a matron and I replied that I had married a matron. He said, "Why hadn't you married a virgin who would have played with you, and you would have played with her?" I replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! My father died (or was martyred) and I have some young sisters, so I felt it not proper that I should marry a young girl like them who would neither teach them manners nor serve them. So, I have married a matron so that she may serve them and teach them manners." When Allah's Apostle (ﷺ) arrived in Medina, I took the camel to him the next morning and he gave me its price and gave me the camel itself as well.