Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Providing oneself with food)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ’’ اپنے ساتھ توشہ لے جایا کرو‘‘ پس بے شک عمدہ ترین توشہ تقویٰ ہے ۔‘‘
2982.
حضرت سلمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ دوران سفر میں صحابہ کرام ؓ کا سفری کھانا کم ہو گیا جس سے وہ قلاش ہو گئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی، آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہو گئی تو انھوں نے اس اجازت کی اطلاع انھیں دی۔ انھوں نے فرمایا: ان اونٹوں کے بعد پھر تمھارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگ اگر اپنے اونٹ ذبح کر دیں تو پھر ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اپنا بچا ہوا زاد سفر میرے پاس لائیں۔‘‘ چنانچہ آپ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلایا۔ سب نے بھر بھر کر کھانا لیا۔ جب فارغ ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ بہت صائب الرائے تھے جب انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ جب اونٹ ذبح کر دیے جائیں گے تو مجاہدین کس پر سواری کریں گے اور سارا سفر پیدل طے کرنا بے حد مشکل ہے۔ چونکہ یہ مشورہ صحیح تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرمایا :اور باقی ماندہ راشن جمع کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے برکت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ تمام مجاہدین کو کافی ہو گیا۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں اپنے صحابہ کرام ؓ کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ 3۔ امام بخاری ؓ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ دوران سفر میں زاداہ ہمراہ رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنا تو کل کے خلاف نہیں۔ واللہ المستعان۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اہل یمن حج کے لیے آتے لیکن زادراہ ساتھ لاتے اور کہتے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں پھر مدینہ طیبہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کر دیتے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح البخاری الحج حدیث 1523)مطلب یہ ہے کہ سفر میں جاتے وقت اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان ہمراہ لے لیا کرو تاکہ تمھیں کسی سے مانگنانہ پڑے۔ یہ بہترین توشہ ہے جیسا کے ذریعے سے تم لوگوں سے مانگنا چھوڑدو گے اور تمھیں تقوی حاصل ہو جائے گا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے اشارہ کیا ہے کہ سفر میں زاد سفر ساتھ لے جانا تو کل کے منافی نہیں ۔(فتح الباری:6/157)
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ’’ اپنے ساتھ توشہ لے جایا کرو‘‘ پس بے شک عمدہ ترین توشہ تقویٰ ہے ۔‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ دوران سفر میں صحابہ کرام ؓ کا سفری کھانا کم ہو گیا جس سے وہ قلاش ہو گئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی، آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہو گئی تو انھوں نے اس اجازت کی اطلاع انھیں دی۔ انھوں نے فرمایا: ان اونٹوں کے بعد پھر تمھارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگ اگر اپنے اونٹ ذبح کر دیں تو پھر ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اپنا بچا ہوا زاد سفر میرے پاس لائیں۔‘‘ چنانچہ آپ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلایا۔ سب نے بھر بھر کر کھانا لیا۔ جب فارغ ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت عمر ؓ بہت صائب الرائے تھے جب انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ جب اونٹ ذبح کر دیے جائیں گے تو مجاہدین کس پر سواری کریں گے اور سارا سفر پیدل طے کرنا بے حد مشکل ہے۔ چونکہ یہ مشورہ صحیح تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرمایا :اور باقی ماندہ راشن جمع کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے برکت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ تمام مجاہدین کو کافی ہو گیا۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں اپنے صحابہ کرام ؓ کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ 3۔ امام بخاری ؓ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ دوران سفر میں زاداہ ہمراہ رکھنا چاہیے۔ ایسا کرنا تو کل کے خلاف نہیں۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "زادراہ ہمراہ رکھو۔ بلا شبہ عمدہ زادراہ تو تقویٰ ہی ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ جب لوگوں کے پاس زاد راہ ختم ہونے لگا تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لوگ اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت لینے حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس اجازت کی اطلاع انہیں بھی ان لوگوں نے دی۔ عمر ؓ نے سن کر کہا، ان اونٹوں کے بعد پھر تمہارے پاس باقی کیا رہ جائے گا (کیوں کہ انہیں پر سوار ہوکر اتنی دور دراز کی مسافت بھی تو طے کرنی تھی) اس کے بعد عمر ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! لوگ اگر اپنے اونٹ بھی ذبح کردیں گے۔ تو پھر اس کے بعد ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا پھر لوگوں میں اعلان کردو کہ (اونٹوں کو ذبح کرنے کے بجائے) اپنا بچا کچھا توشہ لے کر یہاں آجائیں۔ (سب لوگوں نے جو کچھ بھی ان کے پاس کھانے کی چیز باقی بچ گئی تھی، آنحضرت ﷺ کے سامنے لا کر رکھ دی) آپ ﷺ نے دعا فرمائی اور اس میں برکت ہوئی۔ پھر سب کو ان کے برتنوں کے ساتھ آپ نے بلایا۔ سب نے بھر بھر کر اس میں سے لیا۔ اور جب سب لوگ فارغ ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اورکوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ معجزہ دیکھ کر خود آپﷺ نے اپنی رسالت پر گواہی دی‘ معجزہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے جسے وہ اپنے رسولوں کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں سے دکھلایا کرتا ہے۔ حضرت عمر ؓنے یہ اس لئے فرمایا کہ اونٹ تمام ذبح کر دئیے جاتے تو پھر فوجی مسلمان سواری کس پر کرتے اور سارا سفر پیدل کرنا بے حد مشکل تھا۔ یہ مشورہ صحیح تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے قبول فرمایا اور بعد میں سارے فوجیوں کے راشن کو جو باقی رہ گیا تھا آپﷺ نے اکٹھا کرا کر برکت کی دعا فرمائی اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ سارے فوجیوں کو کافی ہوگیا۔ معجزے کا وجود برحق ہے۔ مگر یہ اللہ کی مرضی پر ہے وہ جب چاہے اپنے مقبول بندوں کے ہاتھوں یہ دکھلائے۔ خود رسولوں کو اپنے طور پر اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ ﴿ذالكَ فضلُ اللہِ یؤتیهِ مَن یشاءُ﴾ اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: وَفِي الْحَدِيثِ حُسْنُ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجَابَتُهُ إِلَى مَا يَلْتَمِسُ مِنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِجْرَاؤُهُمْ عَلَى الْعَادَةِ الْبَشَرِيَّةِ فِي الِاحْتِيَاجِ إِلَى الزَّادِ فِي السَّفَرِ وَمَنْقَبَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعُمَرَ دَالَّةٌ عَلَى قُوَّةِ يَقِينِهِ بِإِجَابَةِ دُعَاءِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى حُسْنِ نَظَرِهِ لِلْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ فِي إِجَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ عَلَى نَحْرِ إِبِلِهِمْ مَا يَتَحَتَّمُ أَنَّهُمْ يَبْقَوْنَ بِلَا ظَهْرٍ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ لَهُمْ مَا يَحْمِلُهُمْ مِنْ غَنِيمَةٍ وَنَحْوِهَا لَكِنْ أَجَابَ عُمَرُ إِلَى مَا أَشَارَ بِهِ لِتَعْجِيلِ الْمُعْجِزَةِ بِالْبَرَكَةِ الَّتِي حَصَلَتْ فِي الطَّعَامِ وَقَدْ وَقَعَ لِعُمَرَ شَبِيهٌ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ فِي المَاء وَذَلِكَ فِيمَا أخرجه بن خُزَيْمَةَ وَغَيْرُهُ وَسَتَأْتِي الْإِشَارَةُ إِلَيْهِ فِي عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ الخ(فتح الباري)یعنی اس حدیث سے آنحضرتﷺ کے اخلاق فاضلہ پر روشنی پڑتی ہے اور اس پر بھی کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے کسی بھی بارے میں التماس کرنے پر فوراً توجہ فرماتے اور سفر میں توشہ راشن وغیرہ حاجات انسانی کا ان کے لئے پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ ان کو آنحضرتﷺ کی دعاؤں کی قبولیت پر کس قدر یقین کامل تھا اور مسلمانوں کے متعلق ان کی کتنی اچھی نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے ان کے لئے جو اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ اس احتمال پر ہے کہ ان کو ذبح کرنے کے بعد بھی اللہ پاک ان کے لئے غنیمت وغیرہ سے سواریوں کا انتظام کرا ہی دے گا۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے آنحضرتﷺ کی برکت کی دعاؤں کے لئے عجلت فرمائی تاکہ بطور معجزہ کھانے میں برکت حاصل ہو اور اونٹوں کو ذبح کرنے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔ ایک دفعہ پانی کے قصہ میں بھی حضرت عمر ؓ کو اسی کے مشابہ معاملہ پیش آیا تھا۔ جس کا اشارہ علامات النبوۃ میں آئے گا۔ بعض فقہاء نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ گرانی کے وقت امام لوگوں کے فالتو غلہ کے ذخیروں کو بازار میں فروخت کے لئے حکماً نکلوا سکتا ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے لئے اسی میں خیر ہے نہ کہ غلہ کے پوشیدہ رکھنے میں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama (RA): Once the journey-food of the people ran short and they were in great need. So, they came to the Prophet (ﷺ) to take his permission for slaughtering their camels, and he permitted them. Then 'Umar met them and they informed him about it. He said, "What will sustain you after your camels (are finished)?" Then 'Umar went to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What will sustain them after their camels (are finished)?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "Make an announcement amongst the people that they should bring all their remaining food (to me)." (They brought it and) the Prophet (ﷺ) invoked Allah and asked for His Blessings for it. Then he asked them to bring their food utensils and the people started filling their food utensils with their hands till they were satisfied. Allah's Apostle (ﷺ) then said, "I testify that None has the right to be worshipped but Allah, and I am His Apostle. "