Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The sitting of two men together on a donkey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2988.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کے بالائی علاقے سے اپنی سواری پر تشریف لائے جبکہ آپ نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی جو کعبہ کےکلید (چابی) بردار تھے۔ آپ نے مسجد کے صحن میں اپنی سواری بٹھائی اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو حکم دیا کہ بیت اللہ کی چابی لائیں۔ چنانچہ انھوں نے دروازہ کھولا تو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ ، حضرت اسامہ ؓ اور حضرت عثمان بن ابی طلحہ ؓ بھی داخل ہوئے۔ آپ کافی دیر اندر ٹھہرے رہے۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو لوگ اندر داخل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ داخل ہوئے تو انھوں نے حضرت بلال ؓ کو دروازے کے پیچھے کھڑا پایا۔ انھوں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ حضرت بلال ؓنے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں آپ ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں۔ میں یہ بات پوچھنا بھول گیا کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟
تشریح:
1۔پہلی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھے پر سواری کی اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ اس حدیث سے رسول اللہ ؓ کی تواضع ظاہر ہوتی ہے کیونکہ گدھے پر سواری کرنا پالان پر سوار ہو جانا یا کسی چھوٹے بچے کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھا نا بہت بڑی تواضع ہے۔ 2۔امام بخاری ؒ کا مقصد مطلق طور پر کسی کو اپنے پیچھے بٹھانے کو ثابت کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھانے کو عار خیال نہیں کیا۔ یہ بات دونوں احادیث سے ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کے بالائی علاقے سے اپنی سواری پر تشریف لائے جبکہ آپ نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ بھی تھے اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی جو کعبہ کےکلید (چابی) بردار تھے۔ آپ نے مسجد کے صحن میں اپنی سواری بٹھائی اور حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو حکم دیا کہ بیت اللہ کی چابی لائیں۔ چنانچہ انھوں نے دروازہ کھولا تو رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ ، حضرت اسامہ ؓ اور حضرت عثمان بن ابی طلحہ ؓ بھی داخل ہوئے۔ آپ کافی دیر اندر ٹھہرے رہے۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو لوگ اندر داخل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھے۔ سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ داخل ہوئے تو انھوں نے حضرت بلال ؓ کو دروازے کے پیچھے کھڑا پایا۔ انھوں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ حضرت بلال ؓنے اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں آپ ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں۔ میں یہ بات پوچھنا بھول گیا کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟
حدیث حاشیہ:
1۔پہلی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھے پر سواری کی اور حضرت اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ اس حدیث سے رسول اللہ ؓ کی تواضع ظاہر ہوتی ہے کیونکہ گدھے پر سواری کرنا پالان پر سوار ہو جانا یا کسی چھوٹے بچے کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھا نا بہت بڑی تواضع ہے۔ 2۔امام بخاری ؒ کا مقصد مطلق طور پر کسی کو اپنے پیچھے بٹھانے کو ثابت کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھانے کو عار خیال نہیں کیا۔ یہ بات دونوں احادیث سے ثابت ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، انہیں نافع نے خبردی اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ مکہ کے بالائی علاقے سے اپنی سواری پر تشریف لائے۔ اسامہ ؓ کو آپ نے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا دیا تھا اور آپ کے ساتھ بلال ؓ بھی تھے۔ اور عثمان بن طلحہ ؓ بھی جو کعبہ کے کلید بردار تھے۔ آنحضرت ﷺ نے مسجد الحرام میں اپنی سواری بٹھادی اور عثمان ؓ سے کہا کہ بیت اللہ الحرام کی کنجی لائیں۔ انہوں نے کعبہ کا دروازہ کھول دیا اور رسول کریم ﷺ اندر داخل ہو گئے۔ آپ ﷺ کے ساتھ اسامہ ، بلال اور عثمان ؓ بھی تھے۔ آپ کافی دیر تک اندر ٹھہرے رہے۔ اور جب باہر تشریف لائے تو صحابہ نے (اندر جانے کے لیے) ایک دوسرے سے آگے ہونے کی کوشش کی سب سے پہلے اندر داخل ہونے والے عبداللہ بن عمر ؓ تھے۔ انہوں نے بلال ؓ کو دروازے کے پیچھے کھڑا پایا اور ان سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ نے نماز کہاں پڑھی ہے؟ انہوں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں آنحضرت ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ مجھے یہ پوچھنا یاد نہیں رہا کہ آنحضرت ﷺ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ رسول کریمﷺ نے اونٹنی پر اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بھی بٹھلا رکھا تھا۔ اونٹنی بھی ایک جانور ہے جب اس پر دو آدمیوں کا سوار ہونا ثابت ہوا تو گدھے کو بھی اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جیسا کہ اپنے اپنے مقام پر بیان ہوا ہے۔ یہی آپ کے مجتہد مطلق ہونے کی اہم دلیل ہے اور یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ ایک مجتہد مطلق کے لئے جن شرائط کا ہونا ضروری ہے وہ سب آپ کی ذات گرامی میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ اللہ سارے مجتہدین کرام کو جزائے خیر دے جنہوں نے خدمت اسلام کے لئے اپنے آپ کو کلیۃً وقف کردیا تھا‘ رضي اللہ عنهم و رضوا عنه۔ حدیث میں لفظ حجبة حاجب کی جمع ہے جو دربان کے لئے بولا جاتا ہے۔ کعبہ شریف کے کلید بردار اور دربان یہی خاندان چلا آرہا ہے۔ علاقہ بھوج کچھ کے تاریخی دورہ از ۲۰ مئی تا ۸ جون ۷۱ء کے دوران اس پارے کی حدیث ۲۹۴۸ اور ۲۹۸۸ تک تسوید و تبیض کی گئی‘ اللہ پاک کی خدمت حدیث کو جملہ برادران شائقین بخاری شریف کے حق میں بطور صدقہ جاریہ قبول فرمائے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi from ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to Makkah through its higher region on the day of the Conquest (of Makkah) riding his she-camel on which Usama was riding behind him. Bilal (RA) and 'Uthman bin Talha, one of the servants of the Ka’bah, were also accompanying him till he made his camel kneel in the mosque and ordered the latter to bring the key of the Ka’bah. He opened the door of the Ka’bah and Allah's Apostle (ﷺ) entered in the company of Usama, Bilal (RA) and 'Uthman, and stayed in it for a long period. When he came out, the people rushed to it, and 'Abdullah bin 'Umar was the first to enter it and found Bilal (RA) standing behind the door. He asked Bilal (RA) , "Where did the Prophet (ﷺ) offer his prayer?" He pointed to the place where he had offered his prayer. 'Abdullah said, "I forgot to ask him how many Rakat he had performed."