باب : اگر ( لڑنے والے ) کافروں پر رات کو چھاپہ ماریں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Probability of killing the babies and children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور بغیر ارادہ کے عورتیں‘ بچے بھی زخمی ہو جائیں تو پھر کچھ قباحت نہیں ہے قرآن مجید کی سورۃ اعراف میں لفظ بیاتااور سورۃ نمل میں لفظ لنبیتنہ اورسورۃ نساءمیں لفظ یبیت آیا ہے ۔ ان سب لفظوں کا وہی مادہ ہے جو یبیتون کا ہے ۔ مراد سب سے رات کا وقت ہے ۔یبیتون بان کی حدیث میں ہے‘حضرت امام بخاری کی عادت ہے کہ جب کوئی لفظ ایسا حدیث کے مشتقات یا مواد قرآن مجید مین بھی ہوں توقرآن شریقف کے لفظوں کی بھی تفسیر کریتے ہیں ان کی غرض یہ کہ جو آدمی صحیح بخاری سمجھ کر پڑھے وہ قرآن کے الفاظ بھی با خوبی سمجھ لے۔روایت میں مذکورہ ابواء نامی جگہ مدینہ سے 23 میل پر اور ودان نامی جگہ ابواء سے آگے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔
3013.
امام زہری ؒسے روایت ہے، انھوں نے عبیداللہ سے سنا، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓسے، انھوں نےحضرت صعب ؓ سے بیان کیا اور صرف بچوں کا ذکر کیا۔ عمروبن دینار، ابن شہاب زہری سے بیان کرتے ہیں، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ ہم نے زہری سے سنا، انھوں نے کہا: مجھے عبیداللہ نے بتایا، انھوں نے ابن عباس ؓ سے، انھوں نے حضرت صعب ؓ سے روایت کی کہ ’’وہ (بچے اور عورتیں) ان میں سے ہیں۔‘‘ اور اس طرح بیان نہیں کیا جس طرح عمرو بن دینار نےبیان کیاتھا: ’’وہ اپنے آباواجداد میں سے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔اسلام کا یہ ضابطہ ہے کہ دوران جنگ میں عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے لیکن اگر رات کے وقت مسلمان ،مشرکین پر حملہ آور ہوں تو اندھیرے میں بچوں اورعورتوں کی تمیز مشکل ہوجاتی ہے،ایسے حالات میں اگربچے اور عورتیں مارے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ جان بوجھ کر بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا درست نہیں۔ 2۔مذکورہ حکم شب خون کی صورت میں ہے کیونکہ رات کے اندھیرے میں مردوں کا بچوں اور عورتوں سے امتیاز نہیں ہوسکتا۔ اگربچے اورعورتیں جنگ میں شریک ہوں یا مشرکین انھیں بطور ڈھال استعمال کریں تو پھر انھیں قتل کردینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام امت کااتفاق ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جب حدیث میں کوئی ایسالفظ آتا ہے جس کے مشتقات قرآن میں استعمال کیے گئے ہوں تو الفاظ قرآن کی بھی تفسیر کردیتےہیں کہ جو آدمی صحیح بخاری سمجھ کر پڑھے وہ قرآنی مطالب سے بھی آگاہ ہوجائے۔
اور بغیر ارادہ کے عورتیں‘ بچے بھی زخمی ہو جائیں تو پھر کچھ قباحت نہیں ہے قرآن مجید کی سورۃ اعراف میں لفظ بیاتااور سورۃ نمل میں لفظ لنبیتنہ اورسورۃ نساءمیں لفظ یبیت آیا ہے ۔ ان سب لفظوں کا وہی مادہ ہے جو یبیتون کا ہے ۔ مراد سب سے رات کا وقت ہے ۔یبیتون بان کی حدیث میں ہے‘حضرت امام بخاری کی عادت ہے کہ جب کوئی لفظ ایسا حدیث کے مشتقات یا مواد قرآن مجید مین بھی ہوں توقرآن شریقف کے لفظوں کی بھی تفسیر کریتے ہیں ان کی غرض یہ کہ جو آدمی صحیح بخاری سمجھ کر پڑھے وہ قرآن کے الفاظ بھی با خوبی سمجھ لے۔روایت میں مذکورہ ابواء نامی جگہ مدینہ سے 23 میل پر اور ودان نامی جگہ ابواء سے آگے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔
حدیث ترجمہ:
امام زہری ؒسے روایت ہے، انھوں نے عبیداللہ سے سنا، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓسے، انھوں نےحضرت صعب ؓ سے بیان کیا اور صرف بچوں کا ذکر کیا۔ عمروبن دینار، ابن شہاب زہری سے بیان کرتے ہیں، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ ہم نے زہری سے سنا، انھوں نے کہا: مجھے عبیداللہ نے بتایا، انھوں نے ابن عباس ؓ سے، انھوں نے حضرت صعب ؓ سے روایت کی کہ ’’وہ (بچے اور عورتیں) ان میں سے ہیں۔‘‘ اور اس طرح بیان نہیں کیا جس طرح عمرو بن دینار نےبیان کیاتھا: ’’وہ اپنے آباواجداد میں سے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔اسلام کا یہ ضابطہ ہے کہ دوران جنگ میں عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے لیکن اگر رات کے وقت مسلمان ،مشرکین پر حملہ آور ہوں تو اندھیرے میں بچوں اورعورتوں کی تمیز مشکل ہوجاتی ہے،ایسے حالات میں اگربچے اور عورتیں مارے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں،البتہ جان بوجھ کر بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا درست نہیں۔ 2۔مذکورہ حکم شب خون کی صورت میں ہے کیونکہ رات کے اندھیرے میں مردوں کا بچوں اور عورتوں سے امتیاز نہیں ہوسکتا۔ اگربچے اورعورتیں جنگ میں شریک ہوں یا مشرکین انھیں بطور ڈھال استعمال کریں تو پھر انھیں قتل کردینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام امت کااتفاق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(سابقہ سند کے ساتھ) زہری سے روایت ہے کہ انہوں نے عبیداللہ سے سنا بواسطہ ابن عباس ؓ اوران سے صعب ؓ نے بیان کیا‘ اور صرف ذراری (بچوں) کا ذکر کیا‘ سفیان نے کہا کہ عمرو ہم سے حدیث بیان کرتے تھے ۔ ان سے ابن شہاب ‘ نبی اکرم ﷺ سے ، (سفیان نے) بیان کیا کہ پھر ہم نے حدیث خودزہری (ابن شہاب) سے سنی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی ، انہیں ابن عباس ؓ نے اور انہیں صعب ؓ نے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، (مشرکین کی عورتوں اوربچوں کے متعلق کہ) وہ بھی انہیں میں سے ہیں۔ (زہری کے واسطہ سے) جس طرح عمرو نے بیان کیا تھا کہ ( ھم من اٰبائھم ) وہ بھی انہیں کے باپ دادوں کی نسل ہیں۔ زہری نے خود ہم سے ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کیا (یعنی ھم من اٰبائھم نہیں کہا بلکہ ھم منھم کہا)
حدیث حاشیہ:
اسلام کا حکم یہ ہے کہ لڑائی میں عورتوں بچوں یا بوڑھوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ حضرت امام بخاری ؒیہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر رات کے وقت مسلمان ان پر حملہ آور ہوں تو ظاہر ہے کہ اندھیرے میں عورتوں بچوں کی تمیز مشکل ہو جائے گی۔ اب اگر یہ قتل ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ شریعت کا مقصد صرف یہ ہے کہ قصداً اور ارادہ کرکے عورتوں‘ بچوں یا لڑائی وغیرہ سے عاجز بوڑھوں کو لڑائی میں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے لیکن اگر حالت مجبوری ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ چراگاہ سے متعلق عربوں کا قاعدہ تھا‘ کہیں آباد اور سرسبز جنگل میں پہنچتے تو کتے کو اشارہ کرتے وہ بھونکتا جہاں تک اس کے بھونکنے کی آواز جاتی وہ جنگل بطور چراگاہ اپنے لئے محفوظ کرلیتے‘ کوئی دوسرا اپنا جانور اس میں نہ چرا سکتا۔ آنحضرتﷺ نے یہ طریق جو سراسر ظلم ہے موقوف کیا اور فرمایا کہ محفوظ چراگاہ اللہ یا اس کے رسولﷺ کا ہوسکتا ہے۔ اور امام یا حاکم بھی رسول ﷺ کا قائم مقام ہے‘ دوسرے لوگ کوئی چراگاہ محفوظ نہیں کرسکتے‘ یہ اسلامی عہد کی بات ہے۔ آج کل حکومتیں چراگاہوں کے لئے خود قطعات چھوڑ دیتی ہیں جو عام پبلک کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ ان میں مقررہ ٹیکس ادا کرکے اپنے جانوروں کو چراتے ہیں۔ اسلام کی یہ اہم خوبی ہے کہ اس نے تمدنی‘ معاشرتی‘ اقتصادی‘ سیاسی زندگی کا ایک مکمل ترین ضابطہ حیات پیش کیا ہے۔ دین کامل کی یہی شان تھی۔ سچ ہے ﴿وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ﴾ ( آل عمران:85)صدق اللہ تبارك وتعالیٰ قال النووي أطفالھم فیما یتعلق بالآخرة فبھم ثلاث مذاهب قال الأکثرون ھم في النار تبع لآبائھم وتوقف طائفة والثالث وھو الصحیح أنھم من أھل الجنة قاله الکرماني۔ (نووی) یعنی مشرکین کے بچوں کے بارے میں اکثر علماء کا خیال ہے کہ اپنے والدین کے تابع ہونے کی وجہ سے دوزخی ہیں۔ ایک جماعت اس میں توقف کرتی ہے اور تیسرا مذہب یہ ہے کہ وہ جنتی ہیں اور یہی صحیح ہے۔واللہ أعلم۔