باب : ( حربی ) مشرک سورہا ہو تو اس کا مارڈالنا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Killing a sleeping Mushrik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3022.
حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے چند آدمیوں کو ابو رافع کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسے قتل کردیں۔ ان میں سے ایک صاحب آگے چل کر ان کے قلعے میں داخل ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ان کے گھوڑوں کے اصطبل میں چھپ گیا۔ پھر انھوں نے قلعے کا دروازہ بند کردیا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گدھا گم پایا تو اس کی تلاش میں باہر نکلے۔ میں بھی ان لوگوں کے ساتھ باہرنکلا تاکہ ان پر یہ ظاہر کروں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں شامل ہوں۔ بالآخر انھوں نے گدھا تلاش کرلیا اور قلعے میں داخل ہوگئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آگیا۔ پھر انہوں نےدروازہ بند کردیا اور ایک طاق میں اس کی چابیاں رکھ دیں جسے میں نے دیکھ لیا۔ جب وہ سوگئے تو میں نے چابیوں کا گھچا اٹھایا اوردروازہ کھول دیا۔ پھر میں ابو رافع کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے آواز دی: ابورافع! اس نے مجھے جواب دیا تو میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کردیا۔ وہ چلایا تو میں باہر آگیا۔ میں لوٹ کر پھر اس کے کمرے میں داخل ہوا گویا میں اس کا فریاد رس ہوں۔ میں نے کہا: ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی۔ اس نے کہا تو کیاکررہا ہے تیری ماں کی ہلاکت ہو، میں نے کہا تجھے کیا بات پیش آئی؟ اس نے کہا: نامعلوم کوئی شخص میرے کمرے میں گھس آیا اور اس نے مجھ پر حملہ کردیا ہے۔ انھوں نےکہا: تب میں نے تلوار اس کے پیٹ میں رکھ دی، پھر اس پر زور دیا حتیٰ کہ وہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی۔ جب میں اس کے کمرے سے نکلا توبہت دہشت زدہ تھا۔ میں ان کی سیڑھی کے پاس آیا تاکہ اسکے ذریعے سے نیچے اتروں مگر میں اس پر سے گر گیا اور میرے پاؤں کو سخت چوٹ آئی پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہیں رہوں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں، چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابو رافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان با آواز بلند سنا۔ پھر میں وہاں سے اٹھا تو مجھے اس وقت کچھ بھی درس محسوس نہیں ہوا حتیٰ کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔
تشریح:
1۔ ابورافع یہودی ایسا بدبخت انسان تھا جو رسول اللہ ﷺ کے خلاف بہت بغض وعداوت رکھتاتھا،نیز وہ مشرکین مکہ کو آپ کے خلاف مشورے دیتا اور آپ کے ساتھ جنگ کے لیے انھیں اکساتا تھا۔ اسی نےقبائل کو مشتعل کرکے مدینہ طیبہ پر چڑھائی کا مشورہ دیا۔ بالآخر قدرت نے اس سے پورا پورا انتقام لیا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے اس کا کام تمام کرنے کے لیے عبداللہ بن عتیک،عبداللہ بن عتبہ،عبداللہ بن انیس،ابوقتادہ،اسود بن خزاعی،مسعود بن سنان،عبداللہ بن عقبہ اور اسعد بن حرام ؓ کو روانہ فرمایا۔ 3۔حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے ابورافع عبداللہ بن ابی الحقیق کو سوتے میں قتل کیا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اگرچہ ابورافع کو جگایا مگر یہ جگانا صرف اس کی جگہ معلوم کرنے کے لیے تھا،تاہم وہ سونے والے کے حکم میں تھا کیونکہ وہ اسی جگہ پڑارہا وہاں سے ادھر اُدھر نہیں بھاگاتھا ،لہذا اس کے متعلق بھی یہی کہاجائے گا کہ اسے سوتے میں قتل کردیا تھا۔ممکن ہے کہ امام بخاری ؒنے عنوان قائم کرکے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ ؓنے ابورافع کوسوتے میں قتل کیاجیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے۔
حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے چند آدمیوں کو ابو رافع کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسے قتل کردیں۔ ان میں سے ایک صاحب آگے چل کر ان کے قلعے میں داخل ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ان کے گھوڑوں کے اصطبل میں چھپ گیا۔ پھر انھوں نے قلعے کا دروازہ بند کردیا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گدھا گم پایا تو اس کی تلاش میں باہر نکلے۔ میں بھی ان لوگوں کے ساتھ باہرنکلا تاکہ ان پر یہ ظاہر کروں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں شامل ہوں۔ بالآخر انھوں نے گدھا تلاش کرلیا اور قلعے میں داخل ہوگئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آگیا۔ پھر انہوں نےدروازہ بند کردیا اور ایک طاق میں اس کی چابیاں رکھ دیں جسے میں نے دیکھ لیا۔ جب وہ سوگئے تو میں نے چابیوں کا گھچا اٹھایا اوردروازہ کھول دیا۔ پھر میں ابو رافع کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے آواز دی: ابورافع! اس نے مجھے جواب دیا تو میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کردیا۔ وہ چلایا تو میں باہر آگیا۔ میں لوٹ کر پھر اس کے کمرے میں داخل ہوا گویا میں اس کا فریاد رس ہوں۔ میں نے کہا: ابورافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی۔ اس نے کہا تو کیاکررہا ہے تیری ماں کی ہلاکت ہو، میں نے کہا تجھے کیا بات پیش آئی؟ اس نے کہا: نامعلوم کوئی شخص میرے کمرے میں گھس آیا اور اس نے مجھ پر حملہ کردیا ہے۔ انھوں نےکہا: تب میں نے تلوار اس کے پیٹ میں رکھ دی، پھر اس پر زور دیا حتیٰ کہ وہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی۔ جب میں اس کے کمرے سے نکلا توبہت دہشت زدہ تھا۔ میں ان کی سیڑھی کے پاس آیا تاکہ اسکے ذریعے سے نیچے اتروں مگر میں اس پر سے گر گیا اور میرے پاؤں کو سخت چوٹ آئی پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہیں رہوں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں، چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابو رافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان با آواز بلند سنا۔ پھر میں وہاں سے اٹھا تو مجھے اس وقت کچھ بھی درس محسوس نہیں ہوا حتیٰ کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ابورافع یہودی ایسا بدبخت انسان تھا جو رسول اللہ ﷺ کے خلاف بہت بغض وعداوت رکھتاتھا،نیز وہ مشرکین مکہ کو آپ کے خلاف مشورے دیتا اور آپ کے ساتھ جنگ کے لیے انھیں اکساتا تھا۔ اسی نےقبائل کو مشتعل کرکے مدینہ طیبہ پر چڑھائی کا مشورہ دیا۔ بالآخر قدرت نے اس سے پورا پورا انتقام لیا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے اس کا کام تمام کرنے کے لیے عبداللہ بن عتیک،عبداللہ بن عتبہ،عبداللہ بن انیس،ابوقتادہ،اسود بن خزاعی،مسعود بن سنان،عبداللہ بن عقبہ اور اسعد بن حرام ؓ کو روانہ فرمایا۔ 3۔حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے ابورافع عبداللہ بن ابی الحقیق کو سوتے میں قتل کیا۔ حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ نے اگرچہ ابورافع کو جگایا مگر یہ جگانا صرف اس کی جگہ معلوم کرنے کے لیے تھا،تاہم وہ سونے والے کے حکم میں تھا کیونکہ وہ اسی جگہ پڑارہا وہاں سے ادھر اُدھر نہیں بھاگاتھا ،لہذا اس کے متعلق بھی یہی کہاجائے گا کہ اسے سوتے میں قتل کردیا تھا۔ممکن ہے کہ امام بخاری ؒنے عنوان قائم کرکے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ ؓنے ابورافع کوسوتے میں قتل کیاجیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ ان سے ابو اسحاق نے اور ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے چند آدمیوں کو ابو رفع (یہودی) کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ‘ ان میں سے ایک صاحب (عبداللہ بن عتیک ؓ) آگے چل کر اس قلعہ کے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اندر جانے کے بعد میں اس مکان میں گھس گیا‘ جہاں ان کے جانور بندھا کرتے تھے ۔ بیان کیا کہ انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا‘ لیکن اتفاق کہ ان کا ایک گدھا ان کے مویشیوں میں سے گم تھا۔ اس لئے اسے تلاش کرنے کے لئے باہر نکلے۔ (اس خیال سے کہ کہیں پکڑانہ جاؤں) نکلنے والوں کے ساتھ میں بھی باہر آگیا‘ تاکہ ان پر یہ ظاہر کر دوں کہ میں بھی تلاش کرنے والوں میں سے ہوں‘ آخر گدھا انہیں مل گیا‘ اور وہ پھر اندر آ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ اندر آگیا اور انہوں نے قلعہ کا دروازہ بند کرلیا‘ رات کا وقت تھا‘ کنجیوں کا گچھا انہوں نے ایک ایسے طاق میں رکھا ‘ جسے میں نے دیکھ لیا تھا۔ جب وہ سب سو گئے تو میں نے چابیوں کا گچھا اٹھایا اور دروازہ کھول کر ابو رافع کے پاس پہنچا۔ میں نے اسے آواز دی‘ ابو رافع ! اس نے جواب دیا اور میں فوراً اس کی آواز کی طرف بڑھا اور اس پر وار کر بیٹھا ۔ وہ چیخنے لگا تو میں باہر چلا آیا۔ اس کے پاس سے واپس آ کر میں پھر اس کے کمرہ میں داخل ہوا ‘ گویا میں اس کی مدد کو پہنچا تھا۔ میں نے پھر آواز دی ابو رافع! اس مرتبہ میں نے اپنی آواز بدل لی تھی، اس نے کہا کہ کیا کر رہا ہے، تیری ماں برباد ہو۔ میں نے پوچھا، کیا بات پیش آئی؟ وہ کہنے لگا‘ نہ معلوم کون شخص میرے کمرے میں آ گیا‘ اور مجھ پر حملہ کر بیٹھا ہے‘ انہوں نے کہا کہ اب کی بار میں نے اپنی تلوار اس کے پیٹ پر رکھ کر اتنی زور سے دبائی کہ اس کی ہڈیوں میں اتر گئی‘ جب میں اس کے کمرہ سے نکلا تو بہت دہشت میں تھا ۔ پھر قلعہ کی ایک سیڑھی پر میں آیا تا کہ اس سے نیچے اتر جاؤں مگر میں اس پر سے گر گیا‘ اور میرے پاؤں میں موچ آ گئی‘ پھر جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں تو اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کی موت کا اعلان خود نہ سن لوں۔ چنانچہ میں وہیں ٹھہر گیا۔ اور میں نے رونے والی عورتوں سے ابو رافع حجاز کے سوداگر کی موت کا اعلان بلند آواز سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں وہاں سے اٹھا‘ اور مجھے اس وقت کچھ بھی درد معلوم نہیں ہوا‘ پھر ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور آپ ﷺ کو اس کی بشارت دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara bin Azib (RA): Allah's Apostle (ﷺ) sent a group of Ansari men to kill Abu-Rafi. One of them set out and entered their (i.e. the enemies) fort. That man said, "I hid myself in a stable for their animals. They closed the fort gate. Later they lost a donkey of theirs, so they went out in its search. I, too, went out along with them, pretending to look for it. They found the donkey and entered their fort. And I, too, entered along with them. They closed the gate of the fort at night, and kept its keys in a small window where I could see them. When those people slept, I took the keys and opened the gate of the fort and came upon Abu Rafi and said, 'O Abu Rafi. When he replied me, I proceeded towards the voice and hit him. He shouted and I came out to come back, pretending to be a helper. I said, 'O Abu Rafi, changing the tone of my voice. He asked me, 'What do you want; woe to your mother?' I asked him, 'What has happened to you?' He said, 'I don't know who came to me and hit me.' Then I drove my sword into his belly and pushed it forcibly till it touched the bone. Then I came out, filled with puzzlement and went towards a ladder of theirs in order to get down but I fell down and sprained my foot. I came to my companions and said, 'I will not leave till I hear the wailing of the women.' So, I did not leave till I heard the women bewailing Abu Rafi, the merchant pf Hijaz. Then I got up, feeling no ailment, (and we proceeded) till we came upon the Prophet (ﷺ) and informed him."