باب : جنگ میں جھگڑ اور اختلاف کرنا مکروہ ہے اور جو سردار لشکر کی نافرمانی کرے‘اس کی سزا کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: What quarrels and differences are hated in the war)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں فرمایا ” آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ قتادہ نے کہا کہ ( آیت میں ) ریح سے مراد لڑائی سے ۔یعنی اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہو جائے گی اور دشمن تم پر غالب ہو جائیں گے۔
3039.
حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے ، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔‘‘ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر نے کہا: کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ ﷺ نے تم سے کہ تھی؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم تو لوگوں کے پا س ضرور جائیں گے تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کرسکیں۔ جب یہ لوگ اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیے اور وہ شکست خوردہ ہوکر بھاگنے لگے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ انھیں پچھلی طرف سے بلارہے تھے، جب نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ آدمیوں کے علاوہ اور کوئی نہ رہا تو کافروں نے ہمارے ستر آدمیوں شہید کردیے۔ قبل ازیں نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیاتھا: ستر کو قیدی بنایا اور ستر کو واصل جہنم کیا۔ پھر ابو سفیان نے تین مرتبہ یہ آواز دی: کیا محمد ( ﷺ ) لوگوں میں زندہ موجود ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو جواب دینے سے منع کردیا۔ اس کے بعد، پھر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا: ان لوگوں میں ابو قحافہ کے بیٹے بھی ہیں؟ پھر تین مرتبہ آواز دی: کیا ان لوگوں میں خطاب کے بیٹے ہیں؟ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا اور کہا: یہ تینوں حضرات قتل ہوچکے ہیں۔ اس وقت حضرت عمر ؓ بے تاب ہوکر کہنے لگے: اللہ کی قسم! تو نے غلط کہا ہے، اے اللہ کے دشمن! یہ سب، جن کا تونے نام لیا زندہ ہیں اور ابھی تیرا بُرا دن آنے والا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: آج بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا، یقیناً لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ بلاشبہ تمہارے کچھ مردوں کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں، البتہ میں نے ان کا حکم نہیں دیا لیکن میں اسے بُرا بھی نہیں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان رجز پڑھنے لگا: ’’اونچا ہوجا اے ہبل۔۔۔ تو اونچا ہوجا اے ہبل‘‘ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ !کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا : ’’تم یوں کہو:سب سے اونچا ہے وہ اللہ سب سے رہے گا وہ اجل‘‘ پھر ابو سفیان نے یہ مصرعہ پڑھا: ’’ہمارا عزیٰ ہے تمہارے پا س عزیٰ کہاں‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے جواب نہیں دیتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا جواب دیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’یوں کہو:ہمارا مولیٰ ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے کہاں‘‘
تشریح:
1۔ھبل ایک بت کا نام ہے جوکعبے کے بتوں میں بڑا مانا جاتاتھا، گویا ابوسفیان نے بزعم خویش فتح پرہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہے اور اللہ والے مغلوب ہوگئے ہیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے حقیقت افروز نعرہ بلند کیا کہ (الله أعلى وأجل) جو اس ليے بلند وبرتر ثابت ہواکہ بعد میں ہبل اور دیگر تمام بتوں کاکعبے سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا نام وہاں ہمیشہ سے بلند ہورہا ہے۔ 2۔امام بخاری ؒنے اپنا مدعا یوں ثابت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓسے ان کے ساتھیوں نے اختلاف کیا اور مورچے سے ہٹ گئے،نتیجے کے طور پر سزاپائی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥٢﴾ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾’’اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعده سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا اراده آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے۔ (152) جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے، بس تمہیں غم پر غم پہنچا تاکہ تم فوت شده چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف) پر اداس ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔‘‘ (آل عمران:152، 153) 3۔اللہ تعالیٰ نے اس حادثے میں مسلمانوں کو کئی ایک پریشانیوں سے دوچار کیا:ایک منافقین کے واپس لوٹ جانے کی،دوسری شکست کی،تیسری اپنے شہداء کی،چوتھی اپنے زخمیوں کی،پانچویں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کے متعلق جو افواہ پھیلی اورچھٹی اس جنگ کے انجام کی۔ بہرحال نتیجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہونے کے بعد واقعی دشمن غالب آجاتا ہے۔ واللہ أعلم۔
مطلب یہ ہے کہ میدان جنگ میں لڑائی کے احوال میں اختلاف اچھا نہیں اور امام کی نافرمانی شکست اور غنیمت سے محرومی کا باعث ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا۔بہرحال مذکورہ آیت اُمت کے لیے کلیدی ہدایت پر مشتمل ہے جس پر پوری ملت کے عروج زوال کا دارومدار ہے۔جب تک مسلمان اس پر عمل پیرارہے وہ دنیا پرحکمرانی کرتے رہے اور جب سے باہمی اختلاف وانتشار کا آغاز ہوا،امت کی قوت پارہ پارہ ہوگئی اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں فرمایا ” آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ قتادہ نے کہا کہ ( آیت میں ) ریح سے مراد لڑائی سے ۔یعنی اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہو جائے گی اور دشمن تم پر غالب ہو جائیں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: ’’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے ، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔‘‘ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر نے کہا: کیا تم وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ ﷺ نے تم سے کہ تھی؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم تو لوگوں کے پا س ضرور جائیں گے تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کرسکیں۔ جب یہ لوگ اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیے اور وہ شکست خوردہ ہوکر بھاگنے لگے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ انھیں پچھلی طرف سے بلارہے تھے، جب نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ آدمیوں کے علاوہ اور کوئی نہ رہا تو کافروں نے ہمارے ستر آدمیوں شہید کردیے۔ قبل ازیں نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب نے بدر کے دن ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیاتھا: ستر کو قیدی بنایا اور ستر کو واصل جہنم کیا۔ پھر ابو سفیان نے تین مرتبہ یہ آواز دی: کیا محمد ( ﷺ ) لوگوں میں زندہ موجود ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو جواب دینے سے منع کردیا۔ اس کے بعد، پھر ابوسفیان نے تین مرتبہ کہا: ان لوگوں میں ابو قحافہ کے بیٹے بھی ہیں؟ پھر تین مرتبہ آواز دی: کیا ان لوگوں میں خطاب کے بیٹے ہیں؟ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا اور کہا: یہ تینوں حضرات قتل ہوچکے ہیں۔ اس وقت حضرت عمر ؓ بے تاب ہوکر کہنے لگے: اللہ کی قسم! تو نے غلط کہا ہے، اے اللہ کے دشمن! یہ سب، جن کا تونے نام لیا زندہ ہیں اور ابھی تیرا بُرا دن آنے والا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: آج بدر کے دن کا بدلہ ہوگیا، یقیناً لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ بلاشبہ تمہارے کچھ مردوں کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں، البتہ میں نے ان کا حکم نہیں دیا لیکن میں اسے بُرا بھی نہیں سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان رجز پڑھنے لگا: ’’اونچا ہوجا اے ہبل۔۔۔ تو اونچا ہوجا اے ہبل‘‘ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’تم اسے جواب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ !کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا : ’’تم یوں کہو:سب سے اونچا ہے وہ اللہ سب سے رہے گا وہ اجل‘‘ پھر ابو سفیان نے یہ مصرعہ پڑھا: ’’ہمارا عزیٰ ہے تمہارے پا س عزیٰ کہاں‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے جواب نہیں دیتے ہو؟‘‘ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا جواب دیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’یوں کہو:ہمارا مولیٰ ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے کہاں‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ھبل ایک بت کا نام ہے جوکعبے کے بتوں میں بڑا مانا جاتاتھا، گویا ابوسفیان نے بزعم خویش فتح پرہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہے اور اللہ والے مغلوب ہوگئے ہیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے حقیقت افروز نعرہ بلند کیا کہ (الله أعلى وأجل) جو اس ليے بلند وبرتر ثابت ہواکہ بعد میں ہبل اور دیگر تمام بتوں کاکعبے سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا نام وہاں ہمیشہ سے بلند ہورہا ہے۔ 2۔امام بخاری ؒنے اپنا مدعا یوں ثابت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓسے ان کے ساتھیوں نے اختلاف کیا اور مورچے سے ہٹ گئے،نتیجے کے طور پر سزاپائی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥٢﴾ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾’’اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعده سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا اراده آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے۔ (152) جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے، بس تمہیں غم پر غم پہنچا تاکہ تم فوت شده چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف) پر اداس ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔‘‘ (آل عمران:152، 153) 3۔اللہ تعالیٰ نے اس حادثے میں مسلمانوں کو کئی ایک پریشانیوں سے دوچار کیا:ایک منافقین کے واپس لوٹ جانے کی،دوسری شکست کی،تیسری اپنے شہداء کی،چوتھی اپنے زخمیوں کی،پانچویں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کے متعلق جو افواہ پھیلی اورچھٹی اس جنگ کے انجام کی۔ بہرحال نتیجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہونے کے بعد واقعی دشمن غالب آجاتا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اورتمہاری ہوااکھڑ جائے گی۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو اسحاق نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب ؓ سے سنا‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ احد کے موقع پر ( تیر اندازوں کے ) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر ؓ کو بنایا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی۔ براء بن عازب ؓ نے بیان کیا‘ کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں۔ عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا‘ کہ غنیمت لوٹو‘ اے قوم! غنیمت تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے ساتھی غالب آگئے ہیں۔ اب ڈر کس بات کا ہے۔ اس پر عبداللہ بن جبیر ؓ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ ﷺ نے کی تھی‘ تم اسے بھول گئے؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے۔ جب یہ لوگ (اکثریت) اپنی جگہ چھوڑ چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے‘ اور (مسلمانوں کو) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے‘ یہی وہ گھڑی تھی (جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ) ”جب رسول کریم ﷺ تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے۔“ اس سے یہی مراد ہے۔ اس وقت رسول کریم ﷺ کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے۔ بدر کی لڑائی میں آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول‘ (جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر) ابو سفیان نے کہا کیا محمد ﷺ اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا‘ کیا ابن ابی قحافہ (ابو بکر ؓ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا‘ پھر پوچھا ابن خطاب (عمر ؓ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر ؓ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے خدا کے دشمن! خدا گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لئے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ ابو سفیان نے کہا اچھا ! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم (اپنے آدمیوں کو) نہیں دیا تھا‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا۔ اس کے بعد وہ فخریہ رجز پڑھنے لگا‘ ہبل (بت کا نام) بلند رہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اورسب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابو سفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں ، آپ نے فرمایا ، جواب کیوں نہیں دیتے ، صحابہ نے عرض کیا ، یارسول اللہ ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘ کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔
حدیث حاشیہ:
جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حادثہ ہے جس میں مسلمانوں کو جانی اور مالی کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ رسول کریمﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں کو سخت تاکید کی تھی کہ ہم بھاگ جائیں یا مارے جائیں اور پرندے ہمارا گوشت اچک اچک کر کھا رہے ہوں‘ تم لوگ یہ درہ ہمارا حکم آئے بغیر ہرگز نہ چھوڑنا‘ یہ درہ بہت ہی نازک مقام تھا۔ وہاں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہوسکتا تھا‘ اگر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے جب میدان مسلمانوں کے ہاتھ دیکھا تو وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے درہ چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ اور فرمان رسول اللہﷺ اپنی رائے قیاس کے آگے انہوں نے بالکل فراموش کردیا‘ نتیجہ یہ کہ کافروں کے اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے‘ اور بیشتر مسلمان مجاہدین نے راہ فرار اختیار کی‘ رسول کریمﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ علی مرتضیٰ ‘ عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص‘ طلحہ بن عبید اللہ‘ زبیر بن عوام‘ ابوعبیدہ بن جراح‘ خباب بن منذر‘ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر ؓ باقی تھے۔ ستر اکابر صحابہ شہید ہوگئے۔ جن میں حضرت امیر حمزہؓ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے۔ حضرت ابوسفیانؓ جو اس وقت کفار قریش کے لشکر کی کمان کر رہے تھے‘ جنگ کے خاتمہ پر انہوں نے فخریہ مسلمانوں کو للکارا اور یہ بھی کہا کہ مسلمانو! تمہارے کچھ شہداء مثلہ کئے ملیں گے‘ یعنی ان کے ناک کان کاٹ کر ان کی صورتوں کو مسخ کردیا گیا ہے۔ میں نے ایسا حکم نہیں دیا‘ مگر میں اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔ مشرکوں نے سب سے زیادہ گستاخی حضرت امیر حمزہ ؓ کے ساتھ کی تھی۔ وحشی نامی ایک غلام نے ان پر چھپ کر وار کیا‘ وہ گر گئے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے باپ اور بھائی کا مارا جانا یاد کرکے ان کی نعش کا مثلہ کردیا اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا اور ان کی نعش پر کھڑی ہوئی اور فخریہ شعر پڑھے۔ ہبل ایک بت کا نام تھا جو کعبہ کے بتوں میں بڑا مانا جاتا تھا۔ گویا ابوسفیان نے فتح جنگ پر ہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہوا اور اللہ والے مغلوب ہوئے۔ اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے حقیقت افروز نعرہ أعلی و أجل کے لفظوں میں بلند فرمایا‘ جو اس لئے بلند اور برتر ثابت ہوا کہ بعد میں ہبل اور تمام بتوں کا کعبہ سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ عزوجل کا نام وہاں ہمیشہ کے لئے بلند ہو رہا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھ والوں نے اپنے سردار سے اختلاف کیا اور ان کا کہا نہ مانا‘ مورچہ سے ہٹ گئے‘ اس لئے سزا پائی‘ شکست اٹھائی۔ یہیں سے نص صریح کے سامنے رائے قیاس کرنے کی انتہائی مذمت ثابت ہوئی مگر صد افسوس کہ امت کے ایک کثیر طبقہ کو اس رائے و قیاس نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ نیز افتراق امت کا اہم سبب تقلید جامد ہے جس نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا۔
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara bin Azib (RA): The Prophet (ﷺ) appointed 'Abdullah bin Jubair as the commander of the infantry men (archers) who were fifty on the day (of the battle) of Uhud. He instructed them, "Stick to your place, and don't leave it even if you see birds snatching us, till I send for you; and if you see that we have defeated the infidels and made them flee, even then you should not leave your place till I send for you." Then the infidels were defeated. By Allah, I saw the women fleeing lifting up their clothes revealing their leg-bangles and their legs. So, the companions of 'Abdullah bin Jubair said, "The booty! O people, the booty ! Your companions have become victorious, what are you waiting for now?" 'Abdullah bin Jubair said, "Have you forgotten what Allah's Apostle (ﷺ) said to you?" They replied, "By Allah! We will go to the people (i.e. the enemy) and collect our share from the war booty." But when they went to them, they were forced to turn back defeated. At that time Allah's Apostle (ﷺ) in their rear was calling them back. Only twelve men remained with the Prophet (ﷺ) and the infidels martyred seventy men from us. On the day (of the battle) of Badr, the Prophet (ﷺ) and his companions had caused the 'Pagans to lose 14O men, seventy of whom were captured and seventy were killed. Then Abu Sufyan (RA) asked thrice, "Is Muhammad present amongst these people?" The Prophet (ﷺ) ordered his companions not to answer him. Then he asked thrice, "Is the son of Abu Quhafa present amongst these people?" He asked again thrice, "Is the son of Al-Khattab present amongst these people?" He then returned to his companions and said, "As for these (men), they have been killed." 'Umar could not control himself and said (to Abu Sufyan (RA) ), "You told a lie, by Allah! O enemy of Allah! All those you have mentioned are alive, and the thing which will make you unhappy is still there." Abu Sufyan (RA) said, "Our victory today is a counterbalance to yours in the battle of Badr, and in war (the victory) is always undecided and is shared in turns by the belligerents, and you will find some of your (killed) men mutilated, but I did not urge my men to do so, yet I do not feel sorry for their deed" After that he started reciting cheerfully, "O Hubal, be high! (1) On that the Prophet (ﷺ) said (to his companions), "Why don't you answer him back?" They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) What shall we say?" He said, "Say, Allah is Higher and more Sublime." (Then) Abu Sufyan (RA) said, "We have the (idol) Al Uzza, and you have no Uzza." The Prophet (ﷺ) said (to his companions), "Why don't you answer him back?" They asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What shall we say?" He said, "Says Allah is our Helper and you have no helper."