Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: How to present Islam to a (non-Muslim) boy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3055.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی ﷺ کے ساتھ نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت، جس میں حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے، ابن صیاد کی طرف گئی۔ آکر بنو مغالہ کے ٹیلوں کے پاس اسے بچوں کے ہمراہ کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت وہ قریب البلوغ تھا۔ اسے آپ ﷺ کی آمد کا کچھ علم نہ ہوا حتی کہ نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک اس کی پشت پر مارا پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ کیاتو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟‘‘ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھ لوگوں کے رسول ہیں؟ پھر ابن صیاد نے نبی ﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو اللہ اور اس کے سچے رسولوں پر ایمان لایا ہوں۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے کیا نظر آتا ہے؟‘‘ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ پر حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے اس سے کہا: ’’میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتاوہ کیا ہے؟)‘‘ ابن صیاد نے کہا: وہ "دخ" ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ذلیل اور کم بخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی (دجال)ہے تو تم اس پر ہرگز مسلط نہیں ہو سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی ﷺ کے ساتھ نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت، جس میں حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے، ابن صیاد کی طرف گئی۔ آکر بنو مغالہ کے ٹیلوں کے پاس اسے بچوں کے ہمراہ کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت وہ قریب البلوغ تھا۔ اسے آپ ﷺ کی آمد کا کچھ علم نہ ہوا حتی کہ نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک اس کی پشت پر مارا پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ کیاتو اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟‘‘ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا اور کہا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھ لوگوں کے رسول ہیں؟ پھر ابن صیاد نے نبی ﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’میں تو اللہ اور اس کے سچے رسولوں پر ایمان لایا ہوں۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تجھے کیا نظر آتا ہے؟‘‘ ابن صیاد نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ پر حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہے۔‘‘ پھر نبی ﷺ نے اس سے کہا: ’’میں نے تیرے لیے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے (بتاوہ کیا ہے؟)‘‘ ابن صیاد نے کہا: وہ "دخ" ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ذلیل اور کم بخت! تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ وہی (دجال)ہے تو تم اس پر ہرگز مسلط نہیں ہو سکتے اور اگر یہ وہ نہیں تو اس کے قتل کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیا ن کیا ‘ کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ نے اور انہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت جن میں حضرت عمر ؓ بھی شامل تھے ‘ ابن صیاد ( یہودی لڑکا ) کے یہاں جار ہی تھی ۔ آخر بنو مغالہ ( ایک انصاری قبیلے ) کے ٹیلوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے ان لوگوں نے پالیا ‘ ابن صیاد بالغ ہونے کے قریب تھا ۔ اسے ( رسول کریم ﷺ کی آمد کا ) پتہ نہیں ہوا ۔ آنحضرت ﷺ نے ( اس کے قریب پہنچ کر ) اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر مارا ‘ اور فرمایا کیا تو اس کی گواہی دیتاہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھا ‘ پھر کہنے لگا ۔ ہاں ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے نبی ہیں ۔ اس کے بعد اس نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ آپ نے اس کا جواب ( صرف اتنا ) دیا کہ میں اللہ اور اس کے ( سچے ) انبیاء پر ایمان لایا ۔ پھرآنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا ‘ تو کیا دیکھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک خبر سچی آتی ہے تو دوسری جھوٹی بھی ۔ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا ‘ کہ حقیقت حال تجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے فرمایا ‘ اچھا میں نے تیرے لئے اپنے دل میں ایک بات سوچی ہے ( بتا وہ کیا ہے ؟ ) ابن صیاد بولا کہ دھواں ، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ‘ ذلیل ہو ‘ کمبخت ! تو اپنی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکے گا ۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ! مجھے اجازت ہو تو میں اس کی گردن مار دوں لیکن آنحضرت ﷺ نے فرمایا ‘ اگر یہ وہی ( دجال ) ہے تو تم اس پر قادر نہیں ہو سکتے اور اگر دجال نہیں ہے تواس کی جان لینے میں کوئی خیر نہیں ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Umar and a group of the companions of the Prophet (ﷺ) set out with the Prophet (ﷺ) to Ibn Saiyad. He found him playing with some boys near the hillocks of Bani Maghala. Ibn Saiyad at that time was nearing his puberty. He did not notice (the Prophet's presence) till the Prophet (ﷺ) stroked him on the back with his hand and said, "Ibn Saiyad! Do you testify that I am Allah's Apostle?" Ibn Saiyad looked at him and said, "I testify that you are the Apostle (ﷺ) of the illiterates." Then Ibn Saiyad asked the Prophet. "Do you testify that I am the apostle of Allah?" The Prophet (ﷺ) said to him, "I believe in Allah and His Apostles." Then the Prophet (ﷺ) said (to Ibn Saiyad). "What do you see?" Ibn Saiyad replied, "True people and false ones visit me." The Prophet (ﷺ) said, "Your mind is confused as to this matter." The Prophet (ﷺ) added, " I have kept something (in my mind) for you." Ibn Saiyad said, "It is Ad-Dukh." The Prophet (ﷺ) said (to him), "Shame be on you! You cannot cross your limits." On that 'Umar said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allow me to chop his head off." The Prophet (ﷺ) said, "If he should be him (i.e. Ad-Dajjal) then you cannot overpower him, and should he not be him, then you are not going to benefit by murdering him."