Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: How to present Islam to a (non-Muslim) boy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3057.
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ ان احادیث میں دجال کے متعلق تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری ؒ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اگر اقرارکر لے تو اس کا اسلام قبول ہو گا ۔کیونکہ ابن صیاد قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:ــ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ آپ نے اس انداز سے اس پر اسلام پیش کیا کہ اگر وہ مان لیتا تو اس کا اسلام صحیح تھا۔ اگر بچے کا اسلام قبول نہ ہوتا تو آپ اس پر اسلام پیش نہ کرتے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے بطور امتحان اس سے چند سوال کیے تاکہ صحابہ کرام ؓ پر اس کا باطل ہونا واضح ہوجائے چنانچہ اس نے خود اقرار کیا کہ اس کے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو اس کے پاس صرف سچا فرشتہ ہی آتا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ﴾ کا تصور فرمایا ابن صیاد نے دخان کی بجائے صرف "دخ" بتایا جیسا کہ شیاطین کی عادت ہوتی ہے سنی ہوئی ایک آدھ بات لے اڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اسے جھوٹا نہیں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو سکے۔ اس لیے آپ نے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی رسالت کا پول بھی کھل گیا۔
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر نبی ﷺ لوگوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے اور اللہ کی شایان شان تعریف کی، پھر دجال کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمھیں دجال سے خبردارکرتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس کے فتنے سے آگاہ کیا تھا مگر میں تمھیں ایک ایسی نشانی بتلاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں بتلائی۔ تمھیں علم ہونا چاہیے کہ دجال کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ یک چشم (کانا)نہیں ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ان احادیث میں دجال کے متعلق تین مختلف واقعات بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری ؒ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بچہ اگر اقرارکر لے تو اس کا اسلام قبول ہو گا ۔کیونکہ ابن صیاد قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:ــ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ آپ نے اس انداز سے اس پر اسلام پیش کیا کہ اگر وہ مان لیتا تو اس کا اسلام صحیح تھا۔ اگر بچے کا اسلام قبول نہ ہوتا تو آپ اس پر اسلام پیش نہ کرتے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے بطور امتحان اس سے چند سوال کیے تاکہ صحابہ کرام ؓ پر اس کا باطل ہونا واضح ہوجائے چنانچہ اس نے خود اقرار کیا کہ اس کے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو اس کے پاس صرف سچا فرشتہ ہی آتا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے دل میں ﴿يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ﴾ کا تصور فرمایا ابن صیاد نے دخان کی بجائے صرف "دخ" بتایا جیسا کہ شیاطین کی عادت ہوتی ہے سنی ہوئی ایک آدھ بات لے اڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر اسے جھوٹا نہیں کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو سکے۔ اس لیے آپ نے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی رسالت کا پول بھی کھل گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سالم نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو خطاب فرمایا ‘ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ثناء بیان کی ‘ جو اسکی شان کے لائق تھی ۔ پھر دجال کا ذکرفرمایا ‘ اورفرمایا کہ میں بھی تمہیں اس کے ( فتنوں سے ) ڈراتا ہوں ‘ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس کے فتنوں سے نہ ڈرایا ہو ‘ نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی ‘ اور وہ بات یہ ہے کہ دجال کانا ہو گا اوراللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے ۔
حدیث حاشیہ:
: ترجمۃ الباب الفاظ اتشهد أني رسول اللہ سے نکلتا ہے کہ بچے کے سامنے اسلام میں طرح پیش کیا جائے‘ آنحضرتﷺ کو ابن صیاد سے چند باتیں دریافت کرنا منظور تھیں‘ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں یہ کہہ دوں کہ تو جھوٹا ہے رسول کہاں سے ہوا‘ تو شاید وہ چڑ جائے اور ہمارا مقصد پورا نہ ہو‘ اس لئے ایسا جامع جواب دیا کہ ابن صیاد چڑا بھی نہیں اور اس کی پیغمبری کا انکار بھی نکل آیا۔ آنحضرتﷺ نے آیت ﴿یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾(الدخان:10) کا تصور فرمایا تھا‘ ابن صیاد نے ’’دخان‘‘ کے لفظ سے صرف ’’دخ‘‘ بتلایا جیسے شیطانوں کی عادت ہوتی ہے۔ سنی سنائی ایک آدھ بات لے مرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے حقیقی دجال کے بارے میں بتلایا کہ وہ کانا ہو گا‘ یہ بڑے دجال کا ذکر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میری امت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے‘ جو نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ یہ دجال امت میں پیدا ہو چکے ہیں۔ ہندوستان پنجاب میں بھی ایک شخص نبوت کا مدعی بن کر کھڑا ہوا۔ جس نے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کر دیا اور اب تک اس کے مریدین ساری دنیا میں دجل پھیلانے میں مشغول ہیں جو بظاہر اسلام کا نام لیتے ہیں اور در پردہ اپنے فرضی نام نہاد رسول نبی کی رسالت کی تبلیغ کرتے ہیں اور بھی انہوں نے بہت سے غلط عقائد ایجاد کئے ہیں۔ جو سراسر قرآن و حدیث کے خلاف ہیں۔ علمائے اسلام نے بہت سی کتابوں میں اس فرقہ قادیانیہ کا قلع قمع کیا ہے۔ ہمارے مرحوم استاد حضرت مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسری ؒنے بھی اس فرقہ کی تردید میں بے نظیر قلمی خدمات انجام دی ہیں۔ اللهم اغفرله وارحمه وعافه واعف عنه وأکرم نزله آمین اس حدیث میں تین قصے ہیں۔ کتاب الجنائز میں یہ حدیث مفصل گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Then the Prophet (ﷺ) got up amongst the people, glorifying Allah as He deserves, he mentioned Ad-Dajjal, saying, "I warn you about him (i.e. Ad-Dajjal) and there is no prophet who did not warn his nation about him, and Noah warned his nation about him, but I tell you a statement which no prophet informed his nation of. You should understand that he is a one-eyed man and Allah is not one-eyed".